منگل , 23 اپریل 2024

‘انسداد غیرقانونی لیبر’۔ لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کیلئےآزمائش!

لبنان کی وزارت محنت کی طرف سے ‘انسداد غیرقانونی لیبر’ سےمتعلق قانون کے نفاذ کے اعلان نے ملک میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پہلے سے معاشی مسائل سے دوچار فلسطینی پناہ گزین ایک نئی آزمائش اور مصیبت کا شکار ہونے والے ہیں۔

لبنان میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کو ‘غیرملکی لیبر’ تصور کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ پناہ گزینوں والا سلوک کرنے کے بجائے غیرقانونی طورپرکام کرنےوالے افراد جیسا برتائو کیا جاتا ہے۔ دارالبیضاء پروٹوکول کے مطابق لبنان فلسطینی پناہ گزینوں‌کے ساتھ حسن سلوک کا پابند ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں‌کو اپنے ہاں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا بھی پابند ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا پناہ گزین کا اسٹیٹس بھی برقرار رکھا جائے گا۔

‘انسداد غیرقانونی لیبر’
فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ’شاھد’ لبنان کی وزارت لیبرنےجس نام نہاد قانون کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے غیرقانونی لیبرکے انسداد کی بات کی ہےوہ قانون فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ایک نئی پریشانی کا موجب بن سکتا ہے۔ اس قانون کے اطلاق یا نفاذ فلسطینی پناہ گزینوں کو مزدوری اور ملازمت کے حق سے محروم کرسکتی ہے۔

حال ہی میں لبنانی وزارت لیبرنے غیرقانونی لیبر کے انسداد کے لیے قانون نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان غیرقانونی تارکین وطن یا غیرقانونی لیبرمیں فلسطینی پناہ گزین بھی آسکتے ہیں۔لبنانی پولیس نے 10 جولائی کو وزارت لیبرکے حکم پر ملک میں‌مختلف جہگوں پر چھاپے مار کر مختلف مقامات پرکام کرنے والے افراد کی گرفتاری شروع کی۔ اس دوران کئی غیرقانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا اور ان پرغیرقانونی طریقے سے محنت مزدوری کررہے تھے۔

انسداد غیرقانونی لیبر کے قانون کا سب سے زیادہ منفی اثر فلسطینی پناہ گزینوں‌پرمرتب ہوگا۔ اس وقت لبنان میں کئی ایسی کمپنیاں موجود ہیں جن میں فلسطینی کام کررہے ہیں۔ اگر ان کمپنیوں‌سے فلسطینیوں کو نکالا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی پناہ گزین خاندان متاثر ہوسکتے ہیں۔نئے قانون کےتحت غیرملکیوں‌کو ملازمت کے حصول کے لیے مقامی کرنسی میں 4 لاکھ 80 ہزار سے زاید ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں رقم بہ طورضمانت جمع کرانا ہوگی۔

لبنان میں فلسطینی پناہ گزین اور حق ملازمت
لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تین حصوں میں درجہ بندی کی گئی ہے۔ ان میں ایک درجہ ان فلسطینیوں کا ہے جو فلسطین سے جاتے ہوئے اپنے ساتھ کچھ املاک، مال یا بنک بیلنس ساتھ لے گئے یا بنکوں میں ان کی رقم موجود ہے۔ ان فلسطینیوں‌نے لبنانی معیشت میں مدد فراہم کی۔ ان میں سے بہت سے فلسطینیوں‌نے لبنان کی شہریت حاصل کرلی۔ لبنانی حکومت نے ان فلسطینیوں کو شہریت کے لیے سہولیات فراہم کیں تاکہ ان کی املاک کو لبنان کی املاک میں تبدیل کیا جاسکے۔

دوسرا طبقہ متوسط درجے کے فلسطینیوں کا ہے۔ ان میں زیادہ تر تعلیمی شعبے میں آگے بڑھے اور مختلف فنون حاصل کیے۔ سنہ 1950ء کے عشرے میں انہیں لبنان میں کام کی اجازت نہ ملنے پروہ لبنان کو چھوڑ کردوسرے ملکوں میں چلے گئے۔بعض خلیجی ملکوں اور بعض یورپی ملکوں میں آگئے۔

تیسرا اور سب سے بڑا طبقہ ان فلسطینی پناہ گزینوں‌پر مشتمل ہے جو انتہائی معمولی اجرت پرلبنان میں محنت اور مشقت کرنے پرمجبور ہوئے۔ یہ طبقہ آج بھی غریب اور پسماندہ ہے۔اس وقت تقریبا 75 ہزار فلسطینی لبنان میں زراعت، تعمیرات اور پٹرول اسٹیشنوں پرانتہائی مشکل حالات میں اپنا پیٹ پالنے کے لیے کام کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کےاداروں کی رپورٹس کےمطابق لبنان میں فلسطینیوں کو ملازمت کے حق سے محروم کیا گیا تو اس کے نتیجے میں فلسطینی سوشل انشورینس، اجرت،صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہوجائیں گے۔

لبنان میں اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں کے 12 بڑے کیمپ اور 57 دوسری مختلف کالونیوں میں رہتےہیں۔ ان پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینی کس طرح کی زندگی بسرکرتے ہیں وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ انہیں بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ رہائش کے لیے جگہیں تنگ ہوچکی ہیں۔ رہائش کے معقول انتظامات نہ ہونے کی بناء پر فلسطینی اپنے بچوں کی شادیاں کرنے سے کتراتےہیں۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ بے روزگاری میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …