منگل , 23 اپریل 2024

ٹرمپ عمران ملاقات کے چند پہلو

(سید شکیل احمد)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو کرکٹ بیٹ کا تحفہ خصوصی عطا کیا، اب اس تحفہ کے بارے میںکوئی یہ تاثر قائم کرتا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے خصوصی تحفے کے ذریعے یہ سمجھانے کی مساعی کی ہے کہ جاؤ کرکٹ کھیلو، تو یہ اپنی اپنی سوچ ہی ہے اس کے علاوہ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر آئزن ہاور کی تصویر بھی تحفے میں دی۔ یاد رہے کہ صدر آئزن ہاور واحد امریکی صدر تھے جنہوں نے پاکستان میں کرکٹ ٹیسٹ میچ دیکھا تھا، کسی زمانے میں امریکا کی دومحوری سیاست میں ری پبلکن پارٹی کو پاکستان دوست جماعت قرار دیا جاتا تھا اور ڈیموکریٹک پارٹی پاکستان سے دور اور بھارت نواز تصور کیا جاتا رہا ہے پاکستان کیلئے ری پبلکن پارٹی ہی کے دور میں سب سے زیادہ پاکستان کیلئے امدادی سرگرمیاں دیکھنے میںآئیں اور انہی امدادی سرگرمیوں میں پاکستان امریکی جال میں پھنستا چلا گیا اور جو مقام پاکستان کو ملا ہے وہ ری پبلکن پارٹی ہی کا مرہون منت سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر سے وفد کی صورت میں ملاقات سے قبل ون آن ون ملاقات کا بھی اہتمام کیا گیا جس کے بعد ایک پریس کانفرنس یا پریس بریفنگ کی۔

دونوں لیڈروں کی ملاقات کے بارے میں بتایا گیا کہ اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے دیرینہ تنازع کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کیلئے پیشکش کی ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس پیشکش کا خیرمقدم کیا گیا، اس اطلاع کے عام ہونے کیساتھ ہی بھارت کی جانب سے ایسے کسی امکان کو فوری رد کر دیا گیا۔ ٹرمپ کے بقول کہ وہ دو ہفتے قبل بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کیساتھ تھے اور اس موضوع پر دونوں نے بات کی تھی جس پر نریندر مودی نے کہا تھا کہ کیا آپ (ٹرمپ) اس معاملے پر ثالث بننا چاہیںگے؟ جواب میں ٹرمپ نے پوچھا کہاں! تو انہوں نے کہا کشمیر، کیونکہ یہ معاملہ کئی سالوں سے چل رہا ہے اسلئے ان کے خیال میں وہ چاہتے ہیںکہ یہ حل ہونا چاہئے، کیا آپ بھی چاہتے ہیںکہ معاملہ حل ہوجائے، اگر میں مدد کر سکوں تو میں بخوشی ثالث کا کردار نبھا نے کیلئے تیار ہوں، اگر میں کوئی مدد کر سکتا ہوں تو مجھے ضرور بتائیں، واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم کی ملاقات گزشتہ ماہ جاپان میں G20 کے اجلاس کے موقع پر اوساکا شہر میں ہوئی تھی، غالباً اس موقع پر نریندر مودی نے ٹرمپ سے کہا ہو، امریکی صدر کی جانب سے کی گئی پیشکش پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالث کا کردار ادا کریں اور وہ اپنی جانب سے بھارت کیساتھ مذاکرات کرنے کی سعی کر چکے ہیں۔

عمران خان نے ان جذبات کا بھی اظہار کیا کہ پاکستانی قوم کی دعائیں صدر ٹرمپ کیساتھ ہوں گی اگر وہ مسئلہ کشمیر حل کراسکیں۔ پاکستانی عوام کی دعاؤں کا معاملہ تو الگ بات ہے پہلے ثالث کے قول وفعل کو بھی پرکھنا ہوگا کیونکہ اب تک ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے معاملے میں بھارت ہی کی زبان بولتے آئے ہیں۔ جہاں تک ٹرمپ کو بھارت کی جانب سے پیشکش کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ بھارت کے سرکاری ردعمل سے کیا جا سکتا ہے جو اس نے صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کو ثالثی پر ظاہر کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں دی گئی کہ امریکا مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرے، اس معاملے پر بھارت کا مستقل مؤقف رہا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات اسی وقت ممکن ہوں گے جب وہ سرحد پار ہونے والی دہشتگردی ختم کرے۔ بھارت کے ترجمان نے اپنے ٹویٹ پیغام میں مزید یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات دوطرفہ نوعیت کے ہیں ان کو حل کرنے کیلئے شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ موجود ہے۔

ماضی میں بھی امریکا کی جانب سے کشمیر سمیت دیگر پاک بھارت تنازعات پر ثالثی کی پیشکش ہوتی رہی ہے مگر ہر مرتبہ بھارت کی جانب سے رد کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکا کے مثبت یا منفی پہلوؤں سے ہٹ کر ایک امر کو جسے خوشگوار محسوس نہیںکیا گیا وہ پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کے بارے میں تھا، جب پاکستان کے ایک قومی اخبار کی نمائندہ طیبہ ضیاء کی جانب سے عمران خان سے استفسار کیا گیا کہ آپ پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے میں امریکی صدر سے بات کریں گے؟ یہ سوال سن کر وزیراعظم کے چہرے کے رنگ میں بڑا تغیر رونما ہوا اور محسوس کیا گیا کہ ان کو یہ سوال برا لگا تاہم وہ جس طرح کھل کر اور ہشاش بشاش انداز میںجواب دے رہے تھے اس سوال پر دھیمے لہجے میں عمران خان نے صدر ٹرمپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ہاں ہاں اس پر بھی تبادلہ خیال کریں گے جس پر ٹرمپ عمران خان کے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے بولے ضرور بات کرینگے۔ طیبہ ایک کہنہ مشق، سلجھے ہوئے ذہن کی دانشور صحافی ہیں۔

ان کے کالم کو بھی پذیرائی حاصل ہے اور وہ حاصل مطالعہ بھی ہوتے ہیں، جب وہ سوال کر کے پیچھے کو ہٹ گئیں تو ان سے دو پاکستانی صحافیوں نے سوال کیا کہ انہوں نے یہ سوال کیوں کیا جبکہ عمران خان نے عافیہ سے متعلق سوال کرنے سے منع کر دیا تھا۔ جس کے جواب میں طیبہ ضیاء نے کہا کہ اول تو ان کو منع نہیں کیا گیا تھا دوم اگر منع بھی کر دیا جاتا تو بھی وہ یہ استفسار کرتیں کیونکہ یہ پاکستان کی بیٹی کا معاملہ ہے اور اہم ترین ہے۔ اس موقع پر طیبہ نے ان دو صحافیوں سے استفسار کیا کہ کب منع کیا گیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ جب ان دونوں نے یہ سوال کرنے کی کوشش کی تو عمران خان نے انگلی سے منع فرمایا، کیا تم نے انگلی کا اشارہ نہیں دیکھا، طیبہ بولیں کہ انہوں نے انگلی کا اشارہ نہیں دیکھا، اس وقت رش کی وجہ سے وہ پیچھے تھیں تاہم اگر وہ یہ اشارہ دیکھ بھی لیتیں تب بھی وہ یہ سوال کرتیں کیونکہ یہ پاکستان کی مظلوم بیٹی کا معاملہ ہے اور پہلی مرتبہ امریکی قید میں عافیہ کے بارے میں عمران خان نے قوم کو آگاہ بھی کیا تھا۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …