جمعہ , 19 اپریل 2024

عمران خان کی زبانی تباہ کن شیعہ اتحاد کی خبر نے ٹرمپ کے اوسان خطا کر دیئے

(رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ)

پاکستانی وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے پوری دنیا میں چرچے ہیں۔ صدر ٹرمپ سے انکی ملاقات کے دوران اچانک ٹرمپ نے ایران کا ذکر چھیڑ دیا، جو امریکی صدر کے اندر کے خوف کو ظاہر کر رہا تھا۔ وہ پاکستانی وزیراعظم کو باور کروا رہے تھے کہ وہ ایران کیخلاف امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائیں، ایرانی اچھے نہیں۔ اسی دوران امریکی صدر نے پاکستانی وزیراعظم کے سامنے میڈیا سے یہ بھی کہا کہ پہلے پاکستان ہمارا احترام نہیں کرتا تھا لیکن اب کافی تعاون کر رہا ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ امریکہ افغانستان اور عراق میں ایران کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا، لیکن اسوقت کی پاکستانی حکمران اشرافیہ یہ جانتے ہوئے فیصلہ نہ کرسکی کہ امریکہ کی موجودگی پاکستان کیلئے نقصان دہ ہوگی، الٹا پرویز مشرف نے ایران کیخلاف الزامات کی بوچھاڑ کی اور امریکی دباؤ میں آکر کئے گئے اپنے غلط فیصلوں کے مضمرات سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔

عمران خان نے اسوقت، یعنی نائن الیون کے موقع پر بھی امریکہ کا ساتھ نہ دینے کی تجویز دی تھی اور اب انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان کے متعلق جو میں نے کہا تھا کہ جنگ اس کا حل نہیں، وہ سچ ثابت ہو رہا ہے۔ جب صدر ٹرمپ نے ایران کیخلاف طعنہ زنی کی تو بھی انہوں نے کہا ایران کے ساتھ اگر جنگ شروع کی جاتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر ہوگا، کشیدگی کو ختم کیا جانا چاہیئے، جس کیلئے وہ مدد کرنیکے لئے تیار ہیں۔ امریکی صدر سے ملاقات سے قبل جلسہ سے خطاب میں بھی انہوں نے پاکستانی امریکیوں سے کہا کہ آپ بتائیں میں ٹرمپ سے کیا بات کروں، وہیں یہ بھی کہہ دیا کہ چین کیساتھ پاکستان کے تعلقات ایسے ہیں، جن پر کسی بات چیت (سودی بازی) کی گنجائش نہیں۔ اس دوران ایران اور امریکہ کی کشیدگی پر بات چیت کے متعلق ایک حیران کن انکشاف یہ سامنے آیا ہے کہ عمران خان نے صدر ٹرمپ کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایران کیخلاف جنگ سے باز رہیں، کیونکہ شیعہ بہت زیادہ متحد اور مضبوط ہیں، انکے ساتھ جنگ دوسروں کیساتھ جنگوں کی نسبت تباہ کن ہوگی، جس کے اثرات بہت زیادہ ہونگے۔

عمران خان کے ان جملوں کا ذکر معروف دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگار امتیاز گل نے اے آر وائی نیوز چینل کے پروگرام پاور پلے کے آخری حصے میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ عمران خان نے جس طرح ایٹمی ہتھیاروں کے متعلق کہا ہے کہ اگر انڈیا یہ ختم کر دے تو ہم بھی کر دینگے، اس سے لگتا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اور سیاسی قیادت نے ایک ڈاکٹرائن پر اتفاق کر لیا ہے، عمران خان کے اس موقف کی پوری دنیا میں ستائش ہوگی، یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ پہلی دفعہ پاکستان کے کسی وزیراعظم کی طرف سے چاہے وہ کشمیر کا مسئلہ تھا، ایران کا، افغانستان کا یا نیوکلیئر ہتھیاروں کا، اتنی فصاحت اور بلاغت کیساتھ بات ہوئی ہے کہ ٹرمپ سمیت امریکی سوچ رہے ہونگے کہ انکا اتالیق کون ہے، کس نے پڑھایا ہے انکو، عمران خان نے اتنی آسانی سے مشکل مشکل سوالات کا جواب دیا، عمران خان نے ایران کے حوالے سے جو بات کی، ٹرمپ کو ڈرا دیا ہوگا کہ شیعہ آپس میں بہت متحد ہیں، ان پر جنگ مسلط کی گئی تو دوسرے لوگوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس سے عمران خان نے زبردست پیغام دیا ٹرمپ کو بھی اور جنگ چاہنے والوں کو بھی کہ جنگ کا آغاز نہ کریں، بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔ تجزیہ نگاروں میں یہ بات باور کی جا رہی ہے کہ کشمیر، افغانستان، ایران اور ایٹمی ہتھیاروں سمیت جتنے ایشوز پر عمران خان نے بات کی ہے، وہ ایک peace maker کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس دورے، تقریروں، پریس ٹاکس اور ملاقاتوں پر بات چیت جاری ہے، تبصرے ہو رہے ہیں، لیکن ایک بات منفرد ہے، وہ یہ کہ اس کا محور اسٹیبلشمنٹ نہیں، نہ امریکہ کی نہ پاکستان کی، بلکہ دونوں لیڈر ذاتی حیثیت میں کھل کر بات چیت کر رہے ہیں۔ کم از کم عمران خان نے ایران کے متعلق اس وقت امریکی صدر سے امریکی سرزمین پر کھل کر بات کی ہے، جب امریکی فوجیوں نے جدید ترین میزائل سسٹم، جدید ترین لڑاکا طیارے اور پانچ سو فوجی ریاض بھیجنے کا اعلان کیا ہے، جہاں پاکستان کے سابق آرمی چیف انکا استقبال کریں گے۔

یہ افسوسناک امر ہے کہ راحیل شریف کبھی کھل کر نہیں بتا سکے کہ وہ حرمین کو جب کوئی خطرہ نہیں تو وہ وہاں کیا کر رہے ہیں، اب ان کے ساتھ امریکی بھی شامل ہوگئے ہیں، امریکی اس نام نہاد سعودی عسکری اتحاد کی حفاظت کرینگے یا یہ اتحاد اس لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں امریکیوں نے آنا ہے، یہ عسکری اتحاد انکے لئے صفائی ستھرائی، رہائش اور سکیورٹی کے انتظامات کرے۔ عمران خان کے ایران کے متعلق ٹرمپ کو ڈرا دینے والے جملوں کے متعلق اگر پاکستانی تناظر میں بات کریں تو یہاں جب بھی پاک ایران کشیدگی پر بحث ہوتی ہے تو امتیاز گل سمیت دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور ذمہ داروں کی غالب اکثریت کی یہی رائے سامنے آتی ہے کہ امریکہ اگر کوئی اقدام کرے تو اس دوران لاتعلقی اختیار کی جائے، لیکن عمران خان نے جس طرح کھل کر اور زور دیکر بات کی ہے، یہ کسی اور حقیقت کی نشاندہی کر رہی ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر کسی صورت میں خطے میں جنگ کے حامی نہیں، نمبر دو امریکہ کو طاقتور ترین ملک سمجھتے ہوئے ایران کیساتھ جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں، ایران کی طاقت کو مسلمہ طور پر عوامی طاقت سمجھتے ہیں، خطے میں موجود شیعہ ممالک، شیعہ آبادیوں کو اہمیت دیتے ہیں، شیعوں کو ایران کا حامی سمجھتے ہیں، شیعہ اتحاد کا احترام کرتے ہیں، شیعہ طاقت کو امریکہ کیخلاف معرکہ آراء سمجھتے ہیں، شیعہ اتحاد کو دوسری طاقتوں کی نسبت ممتاز سمجھتے ہیں، امریکی اتحادیوں کو شیعہ طاقت سے پنجہ آزماء نہ ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں، جب شیعہ طاقت کو امریکہ کا اصلی دشمن سمجھتے ہیں اور امریکہ کو افغانستان کے المیے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں تو شیعہ طاقت کو مسلمانوں کے لئے ذمہ دار اور قابل اعتبار گردانتے ہیں، جب یہ کہتے ہیں کہ شیعہ اتحاد اور طاقت دوسروں سے مختلف ہے تو یہ بھی باور کرتے ہیں کہ شیعہ طاقت دوسری علاقائی قوتوں سے برتر ہے۔

اس سے یہ تو واضح ہے کہ عمران خان نے ٹرمپ سے یہ نہیں کہا کہ ایران کے پاس ہتھیار، ایٹم بم، ٹیکنالوجی، افرادی قوت، معدنی ذخائر اور وافر دولت ہے، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایمان کی بنیاد پر شیعوں کے اتحاد کی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ پاکستانی شیعہ عمران خان کی اس بات کو سچ ثابت کریں کہ وہ پاکستان کی ذمہ دار قوت ہیں، جو نظریاتی بنیادوں سے کنارہ کشی کئے بغیر مضبوط، پائیدار اور ترقی یافتہ پاکستان کی ضامن قوت ہیں، جو بقول شہید حسینی رحمۃ اللہ علیہ کے، اپنے فیصلے اسلام آباد میں کرے، نہ کہ واشنگنٹن یا ماسکو میں۔ عمران خان کا ایمان کی بنیاد شیعہ قوت پر یہ اعتماد خطے میں امن کی راہیں کھولنے کا سبب بنے گا اور دورہ امریکہ جس طرح ظاہری طور پر اس کی غمازی کر رہا ہے کہ پاکستان اب امریکی اسٹیٹ کے طور پر پریشر میں نہیں آئیگا، پاکستان اور ایران ایکدوسرے کے قریب آئیں گے، مسلمانوں کے دلوں میں نفرتیں ایجاد کرنیوالے نامراد ٹھہریں گے، عمران خان کی طرح مسلمانوں کو جلد اس کا احساس ہوگا کہ مسلمانوں کی قیادت امین، صالح اور ایمان کی طاقت سے لیس مکتب اہلبیت علہیم السلام کے فرزندوں کا حق ہے، انشاء اللہ۔

یاد رہے کہ کوئی اتحاد بغیر مرکزی قیادت اور لیڈر شپ کے نہ وجود میں آتا ہے، نہ باقی رہتا ہے، نہ کسی طاقت کا تصور کیا جا سکتا ہے، یہ قلبِ نازنین امام مہدی علیہ السلام کے آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے راضی و خوشنود ہونیکی برکت کا نتیجہ ہے کہ دنیا مین شیعہ طاقت سے اس قدر توقعات موجود ہیں، دشمن کے گھر میں، اتحادی ملک کا موقف نظام ولایت فقیہ کی عزت اور شرف کی گواہی دے رہا ہے۔ اہل ایمان کو یہ بھی تسلی رکھنی چاہیئے کہ بابصیرت رہبری کی موجودگی میں اتحاد سے طاقت اور عظمت برقرار رہتی ہے، ایم آئی سکس جیسوں کی شرارتیں اب کام نہیں دکھا سکیں گی، صبر اور حوصلے سے قافلہ آگے بڑھتا رہیگا، قربانیاں، کوششیں اور جدوجہد رائیگاں نہیں جائیگی۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …