ہفتہ , 20 اپریل 2024

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے ‘لیبرحقوق’!

فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘شاھد’ نے ایک تفصیلی رپورٹ میں لبنان میں رہنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کو حاصل قانونی حقوق اور سیاسی اقدار وروایات میں انہیں حاصل مراعات پر روشنی ڈالی ہے۔

مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لبنان میں پناہ گزین کے طورپر بسنے والے فلسطینیوں کو کئی اہم نوعیت کے حقوق حاصل ہے مگر کچھ عرصے سے لبنانی سیاسی اور حکومتی حلقوں میں فلسطینی پناہ گزینوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے اقدامات دیکھے جا رہے ہیں۔

ان میں تازہ واقعہ لبنانی وزیر برائے لیبر کا وہ اعلان ہے جس میں انہوں‌ نے کہا ہے کہ وہ ملک میں غیر ملکی لیبر کے حوالے سے ایک نئے قانون پرعمل کر رہے ہیں جس کے تحت لبنانی شہریوں کے علاوہ دوسرے ملکوں‌ کے باشندوں کو نجی اداروں میں کام کاج اور روزگار نہیں ملے گا۔ اس طرح اس قانون کے تحت لبنان میں رہنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کو روزگار کے حق سے محروم کیا جانے کا پلان تیار کیا گیا ہے۔

یہ تحقیقی رپورٹ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطالعے سے گذری ہے۔ اس میں بیان کردہ اہم نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔

مقدمہ

سنہ 1948ء کو فلسطین میں صہیونی ریاست کےقیام کے بعد لبنان فلسطینیوں کےدرمیان تعلقات میں کئی اتارو چڑھاو آئے۔ دونوں طرف سے کئی پیچیدگیاں اور اختلافات رونما ہوئے۔ ان اختلافات کے علی الرغم لبنان کی حکومتیں تواتر کے ساتھ فلسطینیوں‌ کے حقوق اور دیرینہ مطالبات پر فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑی رہیں۔

البتہ موجودہ لبنانی حقوق کا فلسطینیوں کے حوالے سے لب ولہجہ اور انداز تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ تبدیلی فلسطینی پناہ گزینوں‌ کی ھجرت کے71 سال بعد دیکھی جا رہی ہے۔

ماضی میں بھی لبنانی حکومت فلسطینی پناہ گزینوں کو ان کے شہری، سماجی اور اقتصادی حقوق سے محروم کرنے کے لیے قوانین منظور کرتی رہی ہے مگر حال ہی میں لبنانی حکومت کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے میں بے رخی ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب دوسری طرف امریکا نے بھی فلسطینیوں کے حق واپسی کو ختم کرنے کی سازش تیار کی ہے۔

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کو روزگار کے حصول کی اچھی خاصی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ انہیں سرکار سے ایک پرمٹ لینا پڑتا ہے جس کی فیس 80 ہزار لبنانی پائونڈ ہے۔ اس کےعلاوہ انہیں لبنانی بنکوں میں 10 لاکھ لیرہ کے برابر رقم ڈیبازٹ کرنا ہوتی ہے۔ لبنانی قانون کے تحت تین لبنانیوں کے مقابلے میں ایک فلسطنی پناہ گزین کو روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔

محنت مزدوری کا حق

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے تین طبقات ہیں۔

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تین حصوں میں درجہ بندی کی گئی ہے۔ ان میں ایک درجہ ان فلسطینیوں کا ہے جو فلسطین سے جاتے ہوئے اپنے ساتھ کچھ املاک، مال یا بنک بیلنس ساتھ لے گئے یا بنکوں میں ان کی رقم موجود ہے۔ ان فلسطینیوں‌ نے لبنانی معیشت میں مدد فراہم کی۔ ان میں سے بہت سے فلسطینیوں‌ نے لبنان کی شہریت حاصل کر لی۔ لبنانی حکومت نے ان فلسطینیوں کو شہریت کے لیے سہولیات فراہم کیں تاکہ ان کی املاک کو لبنان کی املاک میں تبدیل کیا جاسکے۔

دوسرا طبقہ متوسط درجے کے فلسطینیوں کا ہے۔ ان میں زیادہ تر تعلیمی شعبے میں آگے بڑھے اور مختلف فنون حاصل کیے۔ سنہ 1950ء کے عشرے میں انہیں لبنان میں کام کی اجازت نہ ملنے پروہ لبنان کو چھوڑ کردوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ بعض خلیجی ملکوں اور بعض یورپی ملکوں میں آگئے۔

تیسرا اور سب سے بڑا طبقہ ان فلسطینی پناہ گزینوں‌ پر مشتمل ہے جو انتہائی معمولی اجرت پر لبنان میں محنت اور مشقت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ طبقہ آج بھی غریب اور پسماندہ ہے۔

اس وقت تقریبا 75 ہزار فلسطینی لبنان میں زراعت، تعمیرات اور پٹرول اسٹیشنوں پرانتہائی مشکل حالات میں اپنا پیٹ پالنے کے لیے کام کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس کے مطابق لبنان میں فلسطینیوں کو ملازمت کے حق سے محروم کیا گیا تو اس کے نتیجے میں فلسطینی سوشل انشورنس، اجرت،صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہوجائیں گے۔

لبنان میں اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں کے 12 بڑے کیمپ اور 57 دوسری مختلف کالونیوں میں رہتے ہیں۔ ان پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینی کس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ انہیں بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ رہائش کے لیے جگہیں تنگ ہوچکی ہیں۔ رہائش کے معقول انتظامات نہ ہونے کی بناء پر فلسطینی اپنے بچوں کی شادیاں کرنے سے کتراتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ بے روزگاری میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

لبنان میں روزگار کے معاملے میں پہلی ترجیح لبنانیوں کو حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد دوسرے ملکوں کے باشندے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ روزگار کا بنیادی اصول لبنانیوں اور غیر لبنانیوں میں یکساں ہے۔ یعنی معاوضہ اور تنخواہ میں لبنانی اور تارکین وطن برابر ہیں۔

سنہ 1982ء میں تنظیم آزادی فلسطین لبنان سے نکل گئی تو لبنانی وزارت لیبر نے ایکٹ 189 مجریہ 1982ء جاری کیا۔ اس قانون کے تحت فلسطینی پناہ گزینوں کے لیےلبنان میں کام پر پابندی لگا دی۔ ان میں انتظامی نوعیت کی ملازمتیں بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر شعبوں میں ملازمت کے لیے کڑی شرائط پر مشتمل ایک اجازت نامہ تیار کیا گیا۔ اس میں طے کی گئی شرائط کی خلاف ورزی پربھاری جرمانے رکھے گئے۔

سنہ 1983ء میں ایک اور قانون منظور کیا گیا جس میں فلسطینیوں کے لیے ممنوعہ پیشوں کی تعداد 75 تک جا پہنچی۔ سنہ 1995ء میں اس میں ایک اور شق کا اضافہ کیا گیا۔

نئی شرائط میں قرار دیا گیا کہ روزگار کے حصول کے لیے پناہ گزین کے والدین میں سے کسی ایک کا لبنانی ہونا ضروری ہے۔ یا امیدوار نے لبنان میں شادی کی ہے اور شادی کو ایک سال ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ لبنانی نژاد ہونا ضروری ہے۔ ان شرائط نے فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ کیا۔ یہ پیچیدگی اج ایک نئی شکل میں دیکھی جا رہی ہے۔

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی

انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ رپورٹس میں‌ بتایا گیا ہے کہ لبنان میں اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں کے 12 بڑے کیمپ اور 57 دوسری مختلف کالونیوں میں رہتے ہیں۔ ان پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینی کس طرح کی زندگی بسرکرتے ہیں وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ انہیں بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ رہائش کے لیے جگہیں تنگ ہوچکی ہیں۔ رہائش کے معقول انتظامات نہ ہونے کی بناء پر فلسطینی اپنے بچوں کی شادیاں کرنے سے کتراتے ہیں۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ بے روزگاری میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

گذشتہ دو عشروں کے دوران فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ کئی پناہ گزین کیمپوں کی تعمیر نو کی کوششیں کی گئیں مگر انہیں حکومت کی رخنہ اندازی سے کام تعطل کا شکار ہوا۔ ان میں نہر البارد پناہ گزین کیمپ خاص طور پر شامل ہے جس میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں متعدد سروسز فراہم کی گئیں۔ عمومی طورپر لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کو ان کے اصل حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔

فلسطینیوں کی حیثیت

چونکہ فلسطینی پناہ گزینوں لبنان میں ‘پناہ گزین’ کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ اس لیے لبنانیوں کے ہاں فلسطینیوں کو دوسرے درجے کی قوم تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سوچ فلسطینیوں کے معاشی حقوق تلف کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لبنان کی معاشی ترقی اور ملک کی تعمیر میں فلسطینی پناہ گزین اپنا خون پسینہ پیش کر رہے ہیں۔

لبنان میں موجود فلسطینی بیرون ملک اپنے خاندانوں کو 6 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی رقم بھیجتے ہیں۔ لبنانی پناہ گزینوں کی بیشتر کمائی لبنان ہی میں صرف ہوتی ہے جو کل کھپت کا 10 فی صد ہے۔ ہر چار میں سے ایک فلسطینی پناہ گزین برسر روزگار ہے یا اس کا اپنا بنک اکائونٹ ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …