ہفتہ , 20 اپریل 2024

ٹرمپ کے یوٹرن: نتائج کیا ہوں گے؟

(امتیاز عالم)

صدر ٹرمپ کے پاکستان کی جانب اپنے پچھلے مخالفانہ رویے پر خوش آئند قلابازی نے وزیر اعظم عمران خان کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور انہوں نے دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جانب سے ’تخریبی کردار‘ جیسے ان کے سخت ریمارکس اور دنیا کے چہرے سے افغانستان کو مٹادینے کی شدید نفرت انگیز بڑھک کے باوجود بردباری سے کام لیا۔ غالباً وہائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران اپنی گھبراہٹ کے باوجود عمران خان کو ٹرمپ کے اس انکشاف پر کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے ان سے کشمیر میں ثالثی کے لئے درخواست کی تھی، بہت زیادہ تشفی ہوئی۔

یقیناً ٹرمپ کے ریمارکس نے عمران خان، جنہوں نے اپنے امریکی دورے کو ایک قسم کا ایک اور ’عالمی کپ‘ قرار دیا ہے، کی مدد کے بجائے بھارت اور افغانستان دونوں میں طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ تاہم وزیر اعظم اور ان کے وفد نے ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر نچھاور کی جانے والی تعریفوں پر خوشی کا اظہار کیا۔ افغانستان میں 19 سالوں سے امریکی کردار کو بطور پولیس جوان افسوس کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر نے مایوسی کی حالت میں پاکستان سے نہ ختم ہونے والی جنگ سے ’خود کو نکالنے‘ کے لئے مدد مانگی۔

سفارتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے ورکنگ دورے کا انتظام شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اپنے ایک قریبی دوست اور داماد اور ٹرمپ کے سینئر ایڈوائزر جیرڈ کشنر کے ذریعے کیا گیا تھا۔ سب سے زیادہ با اثر سینیٹرز میں سے ایک سینیٹر لنڈسے گراہم بھی چند پینٹاگون کے افسران کے ساتھ بہت سرگرم رہے ہیں۔ جی ایچ کیو اور پینٹاگون کے درمیان موثر چینل بھی کم اہم نہیں تھا جس نے عمران خان کے پہلے امریکی دورے کی واضح کامیابی کے علاوہ احتیاط سے پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ جنرل باجوہ کی ملاقاتوں کے لئے محنت کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکاری امریکی چینلز بالخصوص اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو وہائٹ ہاؤس کی جانب سے نظر انداز کیا گیا۔ حالانکہ کئی معاملات کو پیشگی درست کرلیا گیا تھا، ہر کوئی دونوں مقبول رہنماؤں کے شوخ و چنچل کردار کے لئے اچھی امید کا اظہار کر رہا تھا۔ عمران خان کافی فکرمند نظر آئے جیساکہ ان کی باڈی لینگویج سے اس کا اظہار ہوا لیکن انہوں نے غیرمعمولی طور پر برد باری سے کام لیا۔ لیکن ٹرمپ حسب معمول متلون مزاج اور سخت اور نرم رہے۔

تاہم دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کو تعریفی پیغام دینے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ وہی ٹرمپ تھے جنہوں نے 1 جنوری 2018 کو اپنے نئے سال کے پیغام میں ٹوئٹ کیا تھا کہ ’امریکا نے بیوقوفی سے پاکستان کو 15 سالوں سے زائد کے عرصے میں امداد کی مد میں 33 ارب ڈالرز سے زائد کی رقم دی اور انہوں نے جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ انہوں نے دہشت گردوں (طالبان) کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کی جنہوں نے افغانستان میں ہمارے فوجیوں کا شکار کیا۔ نو مور‘ ۔

کولیشن سپورٹ فنڈ جسے ابتداء میں روک لیا گیا تھا اس میں 7 سو ملین ڈالرز تک کی کٹوتی کی گئی اور بقیہ 3 سو ملین ڈالرز کو آگے چل کر معطل کردیا گیا جس کے ساتھ بقایا جات جمع ہوکر 9 ارب ڈالرز ہو گئے۔ حقیقت میں امریکا بھارت اسٹریٹجک تعلقات سے پاک امریکا ٹرانزیکشنل تعلقات کی ڈی ہائیفنیشن سے زائد صدر ٹرمپ کی ہوائی میں یو ایس پیسیفک کمانڈ کو انڈو پیسیفک کمانڈ میں بدلنے اور کمیونیکیشنز، کمپیٹبلٹی اور سیکورٹی ارینجمنٹ (COMCASA) پر دستخط کرنے سے بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی تعمیر کی جانب جنوبی ایشیا کی پالیسی میں ایک نیا موڑ آیا۔

چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرتے ہوئے بھارت کے نخرے اٹھاتے ہوئے نئی فورسز کی صف باندھی گئی تاکہ ناصرف انڈو پیسیفک خطے میں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا جائے۔ انڈو یو ایس تجارت 2018 میں 87.5 ارب ڈالرز تک بڑھ گئی اور صدر اوباما کی جانب سے اس کا تخمینہ 500 ارب ڈالرز تک کا لگایا گیا تھا۔ لیکن جلد ہی ٹرمپ بھارت سے مایوس ہونے لگے جو اضافی سیکورٹی بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں تھا خصوصاً مالیاتی شرائط میں۔

امریکی ہتھیار خریدنے کے بجائے مودی ہتھیار کے لئے بشمول روس سے ایس 400 میزائل نظام خریدنے دوسری جگہیں چلے گئے۔ جیسا کہ امریکی تجاری خسارہ 24.2 ارب تک بڑھ گیا تھا، ٹرمپ کا صبر جواب دے گیا اور وہ تجارتی رعایات سے پیچھے ہٹ گئے جنہیں ابتداء میں منظور کیا گیا تھا۔ اسی طرح بھارت کی افغانستان کو محدود امداد کو ٹرمپ کی جانب سے ایک ناگوار ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن جس نے ٹرمپ کو اپنی جنوبی ایشیا پالیسی پر یو ٹرن لینے پر مجبور کیا وہ اپنے دوبارہ انتخاب کی کوشش سے قبل افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لئے ان کی تمنا ہے چونکہ انہوں نے اپنی گزشتہ انتخابی مہم میں افغانستان اور دوسری جگہوں سے اپنے فوجی دستے نکالنے کا وعدہ کیا تھا۔

انہوں نے کافی ہچکچاہٹ دکھاتے ہوئے فوجی دستوں کی سطح 14000 تک بڑھائی تھی جبکہ اپنے کمانڈرز کو نوٹس پر رکھ دیا تھا کہ اگر انہوں نے ڈیلیور نہیں کیا تو وہ ان کی حیثیت واپس لے لیں گے۔ افغان جنگ میں کسی بھی قسم کی پیشرفت میں ناکامی دیکھتے ہوئے انہوں نے گزشتہ سال طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھول دیے۔ پاکستان کی مدد سے سفیر زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان دوحا مذاکرات سے معاہدے کا فریم ورک عمل میں آیا ہے۔

اگرچہ امریکا نے امریکی اتحادی افواج کے انخلاء کے ٹائم فریم پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، طالبان نے ذمہ داری لی ہے کہ وہ کسی عالمی دہشت گرد گروہ کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف افغانستان کی زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اب تک طالبان اشرف غنی حکومت کے ساتھ بات چیت پر رضامند نہیں ہوئے ہیں اور جنگ بندی کے حوالے سے لچک نہیں دکھائی۔ جیسا کہ وقت گزرتا جا رہا ہے، امریکا کے انخلا کے ارادے نے طالبان کا اعتماد بڑھا دیا ہے جنہوں نے اپنے ملٹری حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ دوحا میں سخت سودے بازی کر رہے ہیں۔

امریکا کا ارادہ ہے کہ مذاکرات کا ستمبر تک اختتام ہوجائے لیکن طالبان کو کوئی جلدی نہیں۔ وزیر اعظم کے دورے کا انتظام انٹرا افغان مصالحت اور افغانستان کے مستقبل کے سیٹ اپ کے لئے طالبان کو اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کے لئے منانے کے علاوہ انہیں جنگ بندی کی جانب دھکیلنے کی پاکستان کی آخری کوشش کے طور پر کیا گیا۔ ابتدائی طور پر ٹرمپ خان اجلاس کا مقصد 19 سالہ جنگ کے اختتامی مرحلے میں مفادات پر اتفاق رائے قائم کرنا تھا۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بظاہر افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے ’معزز انخلا‘ (آنرایبل ایگزٹ) کے بدلے کابل میں جنگ کے بعد سیاسی سیٹ اپ کے وسطی مرحلے پر طالبان کو لانا چاہتی تھی۔ لیکن یہ ایک بہت پیچیدہ مرحلہ ہے اور بہت ساری قوتیں اور علاقائی تنظیمیں ہیں جنہیں بھی ساتھ لینا ہے۔ سب سے زیادہ مشکل مرحلہ افغانستان کے مستقبل کے سیٹ اپ اور اس میں کئی مقابلہ کرتی ہوئی قوتوں کے حصے پر ہوگا۔ آج کا افغانستان 2001 کے افغانستان سے بہت مختلف ہے۔

سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ پھر سے کسی باہمی ہلاکتوں کے تنازع کے مرحلے میں نہ پھنس جائے جس طرح سے جنیوا معاہدے کے بعد اور سویت فورسز کے انخلاء کے بعد پہلے ہوچکا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی معیشت کی بقا اور استحکام کو یقینی بنانے کے لئے افغانستان کو تقریباً 10 ارب ڈالرز کی سالانہ امداد کون دے گا؟ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ امریکا سامان سمیٹ کر نکل جائے گا اور پاکستان اور افغانستان کے دیگر پڑوسیوں کو پھر سے افغانستان میں ایک اور غیرملکی جنگ کے ملبے کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ جنگ سے تباہ شدہ ملک کی تعمیر کو جاری رکھنے کے لئے تعمیراتی اور بحالی منصوبہ ہونا چاہیے اور ہمارے افغان پڑوسیوں کی تکالیف دور کی جانی چاہئیں۔(بشکریہ روز نامہ جنگ)

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …