جمعرات , 18 اپریل 2024

مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل

(وسعت اللہ خان)

وزیرِ اعظم عمران خان کا دورہِ امریکا اتنا کامیاب رہا کہ علی الصبح لگ بھگ وفاقی کابینہ اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے قائد کا پرجوش استقبال کیا۔ عمران خان نے اس موقع پر جو خطاب فرمایا اس میں فقیر کو سب سے اچھا فقرہ یہ لگا کہ ”لگتا ہے ورلڈ کپ جیت کے آرہا ہوں“۔ ایسا جملہ تو کبھی بیجنگ، ریاض یا ابوظہبی کے دوروں کی قسمت میں بھی نہ آیا جنھوں نے کبھی بھی خانصاحب کو خالی ہاتھ گھر واپس نہ بھیجا۔

جب سے میں نے یہ جملہ سنا تب سے دعاگو ہوں کہ کاش ٹرمپ کا کوئی اگلا ٹویٹ ایسا نہ ہو کہ ورلڈ کپ والے جملے کا مزہ جاتا رہے۔ کاش وہ والا واقعہ پھر سے دیکھنے کو نہ ملے جب ایک وڈیرے نے الیکشن جیتنے کے لیے حلقے کے تمام چھوٹے بڑے بارسوخ عمائدین سے رابطہ شروع کیا۔ ان عمائدین میں ایک چھوٹے موٹے پیر صاحب بھی تھے جن کے کوئی دو ڈھائی ہزار مرید تھے۔ وڈیرے نے انھیں ڈیرے پر تشریف لانے کی دعوت دی اور چار مرسڈیزوں کا قافلہ پیشوائی کے لیے روانہ کیا۔ پیر صاحب کو بہت دھوم دھام سے ڈیرے پر لایا گیا۔ وڈیرے نے دروازے پر پیر صاحب کا استقبال کیا۔ پرتکلف ظہرانہ ہوا۔ اس کے بعد وڈیرے نے باتوں باتوں میں پیر صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنے مریدوں کو ہدایت دیں کہ ووٹ کس کو دینا ہے۔ میں آپ کا نیاز مند اب بھی ہوں تب بھی رہوں گا۔

پیر صاحب نے گفتگو بڑی خوبصورتی سے سیم و تھور، پسماندگی، حکایات اور قصے کہانیوں کی طرف موڑ دی اور اشارہ تک نہیں دیا کہ وہ اپنے مریدوں کو وڈیرے کو ووٹ دینے کا کوئی واضح حکم دیں گے کہ نہیں۔ بس اٹھنے سے پہلے دعاِ خیر میں اتنا کہا کہ اللہ تعالی سب کی مرادیں پوری کرے۔

پیر صاحب کا یہ تجاہل ِ عارفانہ دیکھتے ہی وڈیرے کا رویہ بدل گیا۔ اس نے پیر صاحب سے گرم جوش معانقے کے بجائے ہاتھ کی تین انگلیاں بڑھا دیں اور پیر صاحب کے کمرے سے نکلتے ہی اپنے منشی سے کہا اسے مرسڈیز میں چھوڑ کر مت آنا۔ سائیکل پر بٹھا کے لاری اڈے پر چھڑوا دو۔

مطلب کیا ہوا یہ طولانی قصہ سنانے کا؟ مطلب یہ ہوا کہ جس طرح وڈیرے کو اسمال سائز پیر صاحب کے ووٹوں کی ضرورت تھی۔ اسی طرح امریکا کو اس وقت افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان امریکا کی ”باعزت شکست“ ڈلیور نہیں کرتا تو پھر ٹرمپ کو تازہ پاک امریکا ”محبتیں“ مرسڈیز کے بجائے سائیکل کی گدی پر بٹھا کر لاری اڈے پہنچانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ (میرے منہ میں خاک ) ۔

دیکھنا یہ ہے کہ ستمبر اکتوبر میں جب پاکستان کو ٹیرر فنانسنگ کی گرے لسٹ سے نکالنے یا بلیک لسٹ میں ڈالنے کا معاملہ فیٹف کے پیرس اجلاس میں حتمی فیصلے کے لیے پیش ہوتا ہے تو اس وقت امریکا اور اس کے فیٹف اتحادیوں کا رویہ پاکستان کے لیے کیا ہو گا؟ کیا امریکا فیٹف کی دلدل سے نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھائے گا یا عمران خان واشنگٹن سے جو ورلڈ کپ لائے ہیں وہ بھی رہن رکھنا پڑے گا۔

ایسے مدبروں اور رہنماؤں کی طویل فہرست ہے جنھوں نے ”تم نے ہمارا دل خوش کیا ہم نے تمہارا دل خوش کیا“ کے اصول پر استوار امریکا کی خارجہ و عالمی پالیسی کو ایک دائمی ذاتی تعلق سمجھ کر اپنی ساری پونجی کا سٹہ کھیل لیا اور سڑک پر آ گئے۔ یقین نہ آئے تو ایوب خان، یحیی، بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر اور پرویز مشرف کے دورہِ امریکا کی گلنار تصاویر دیکھ لیں جب جانسن سے بش جونئیر تک ہر امریکی صدر پاکستانی مہمانوں کے لیے قالین بنتا رہا اور پھر یہ قالین پیروں کے نیچے سے کس چابکدستی سے کھینچ لیا گیا۔ ( یہاں میں نے جان بوجھ کر نواز شریف کے واشنگٹن دوروں کا ذکر نہیں کیا ) ۔

اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خان صاحب امریکا سے جو ورلڈ کپ لائے ہیں تو ہم اس خوشی میں ان کے شریک نہیں۔ بس امریکا سے اگلا میچ کھیلتے وقت گگلیوں یا باؤنسرز سے زیادہ اس پر دھیان رکھنے کی ہمہ وقت ضرورت ہے کہ پیچھے سے وکٹیں ہی نہ غائب ہو جائیں۔

عمران خان کو ساتھ بٹھا کر ٹرمپ نے میڈیا سے جو باتیں کیں ان میں سے ایک بات کمال تھی ”اگر میں یہ جنگ جیتنا چاہتا تو افغانستان صفحہِ ہستی سے مٹ جاتا۔ صرف دس دن میں قصہ تمام ہو جاتا۔ مگر میں اس راستے پر نہیں جانا چاہتا اور ایک کروڑ لوگ نہیں مارنا چاہتا“۔

جب محمود احمدی نژاد نے نو برس قبل اسرائیل کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی بات کی تھی تو کیا شور و غوغا ہوا تھا کہ جس کی بازگشت آج بھی نتین یاہو اور امریکی کانگریس کے بہت سے ارکان کی گفتگو میں سنائی دیتی ہے۔ مگر ٹرمپ شمالی کوریا، ایران اور اب افغانستان کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں اور اس پر عالمی ردِ عمل کچھ یوں ہے کہ ”مست مولا آدمی ہے، یہ رمز کی باتیں ہیں۔ انھیں ہو بہو نہیں لینا چاہیے بلکہ ان جملوں میں پوشیدہ معنی تلاش کرنے چاہئیں“۔یقیناً ننانوے فیصد مواقع پر ایسی مجذوبانہ باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے مگر ایک فیصد امکان بھی دنیا تہہ و بالا کرنے کے لیے بہت ہے۔

ٹرومین ٹرمپ تو نہیں تھا پھر بھی اس نے دو جاپانی شہر صفحہِ ہستی سے مٹا دیے۔ جانسن اور نکسن ٹرمپ تو نہیں تھے پھر بھی انھوں نے ویتنام میں پچاس ہزار امریکی فوجیوں کے بدلے تیس لاکھ ویتنامی مار ڈالے، کلنٹن اور بش جونئیر ٹرمپ تو نہیں تھے پھر بھی عراق میں اقتصادی پابندیوں اور پھر دو جنگوں کے نتیجے میں پانچ لاکھ بچوں سمیت ایک ملین سے زائد عراقی مر گئے۔ بش جونئیر اور اوباما ٹرمپ تو نہیں تھے۔ پھر بھی افغانستان میں نائن الیون سے اب تک کتنے افغان مر گئے کسی کے پاس کوئی مصدقہ تفصیل نہیں۔ بس یہی کہتے ہیں کہ لاکھوں مر گئے۔ سوچیے اگر نائن الیون کے قیامتی چھینٹوں سے ستر ہزار سے زائد پاکستانی مر چکے ہیں تو براہ راست امریکا کو اٹھارہ برس سے جھیلنے والے افغانستان میں کتنی ہلاکتیں ہوئی ہوں گی؟

مگر سب کچھ کہنے لکھنے بکنے جھکنے کے بعد بھی تان یہیں آن کر ٹوٹتی ہے کہ بین الاقوامی مفادات کے قحبہ خانے میں اگر چھوٹے اور مجبور ملک کسی ایک کوٹھے سے اتر کر بھاگنا بھی چاہیں تو کہاں جائیں؟ آگے کوئی نیا دلال اور نائکہ بانہیں پھیلائے دانت نکوسے کھڑے ہوں گے۔ اور پھر آخر میں دل اس پر سمجھوتہ کر لیتا ہے کہ نجات تو شاید اس قحبہ گری سے کبھی نہ ہو کم ازکم کوئی مہربان گاہک ہی مل جائے جو اپنے سائے میں رکھ لے، کچھ دن کے لیے ہی سہی۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …