جمعرات , 25 اپریل 2024

بیت المقدس: وادی حمص کےمکینوں کا سانس لینا بھی دشوار!

مقبوضہ بیت المقدس میں‌بسنے والے فلسطینیوں‌ پر ہرنیا دن ہی نہیں‌ بلکہ ہرآنے والا لمحہ اور لحظہ بھی ایک نئی مشکل، پریشانی اور خوف پیدا کر رہا ہے۔ مجموعی طورپر پورے بیت المقدس کو عبرانی اور یہودی رنگ میں رنگنے کے لیے اسرائیل کی سرکاری اور غیر سرکاری مشینری دن رات سرگرم ہے۔ بیت المقدس کے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور انہیں ان کے گھر بار اور املاک سے محروم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔

اس وقت بھی اہل القدس ایک بڑی پریشانی کا شکار ہیں۔ بیت المقدس کی نام نہاد اسرائیلی بلدیہ نے فلسطینی باشندوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کردیے ہیں۔ بیت المقدس کے نواحی علاقے صور باھر میں‌واقع وادی الحمص کالونی میں کوئی ایک سو فلسطینی گھر آباد ہیں۔ اسرائیلی ریاست نے ان فلسطینیوں کر ریاستی جبرکے ذریعے وہاں‌سے نکال کرغرب اردن کی طرد دھکیلنا شروع کردیا ہے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ عرب ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمان ہیں اور وہ بیت المقدس کے عرب اور اسلامی تشخص کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح صہیونی ریاست نے فلسطینیوں سے ان کا جینے کا حق تک سلب کرنا شروع کردیا ہے۔ ان کے گھروں کی اجتماعی مسماری اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی قوم کو بدترین ریاستی جبر اور نسل پرستی کا سامنا ہے۔ وادی الحمص میں بسنے والے فلسطینیوں کے 16 مکانات مسمار کردئیے گئے۔ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔

وادی الحمص کے فلسطینیوں کو پہلے ہی طرح طرح کی پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا ہے۔ انہیں نئے گھرتعمیر کرنے یا گھروں کی ترمیم ومرمت اور توسیع کی اجازت نہیں۔ ان پر بغیر کسی وجہ کے کمر توڑ دینے والے ٹیکس عاید کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں رہنے والے فلسطینی یہاں رہائش کی بہت بھاری قیمت چکا رہےہیں۔ انہیں ادنیٰ درجے کے حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ انہیں دیوار فاصل کی دوسری طرف دھکیلا جا رہا ہے اور القدس میں ان کا سانس لینا بھی غاصب صہیونیوں‌ کو گوارا نہیں۔

یہاں یہ واضح رہے کہ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اراضی کی جو عارضی انتظامی تقسیم کی گئی تھی اس کے مطابق وادی الحمص’ سیکٹر اے’ میں آتی ہے اور انتظامی طور پریہ کالونی فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام ہے۔ یہاں پر فلسطینیوں‌نے رام اللہ اتھارٹی سے مکانات کی تعمیر کے این او سی حاصل کر رکھے ہیں مگر صہیونی ریاست چونکہ کسی قاعدے، قانون اور آئین کی پابند نہیں، اس لیے اس نے اوسلو معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔

جدید ذرائع
وادی الحمص میں مقامی شہریوں کی نمائندہ کمیٹی کے چیئرمین حمادہ حمادہ نے ‘مرکزاطلاعات فلسطین’ کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اوسلو معاہدے کے تحت وادی الحمص کالونی میں مکانات کی تعمیر کی اجازت دینے کی مجاز صہیونی ریاست نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی ہے۔ فلسطینیوں نے حکومت سے مکانات کی تعمیر کی اجازت لینے کے بعد وہاں پر گھر تعمیر کیے ہیں۔ دوسری طرف صہیونی ریاست نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں فلسطینی سیکیورٹی اداروں کو وہاں پرکسی قسم کے عمل دخل کی اجازت نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ قابض صہیونی ریاست نے ایک فوجی آرڈر جاری کررکھا ہے جس کے تحت دیوار فاصل سے 250 میٹر تک کسی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں۔

وادی الحمص کی اراضی کو ہتھیانے لیے پرانے شکاری نئے نئے جال ڈال رہے ہیں۔ اس کالونی کا رقبہ 3 ہزار دونم پر مشتمل ہے۔ اس میں سے آدھا رقبہ صہیونی فوج نے غصب کر رکھا ہے جس پر دیوار فاصل تعمی کرنے کے علاوہ دیگر فوجی اور غیر فوجی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔

آج سے دس سال پیشتر صہیونی لوکل گورنمنٹ نے فلسطینیوں کو محدود پیمانے پرگھروں‌کی تعمیر کی اجازت دی تھی مگر سنہ 2012ء میں وادی الحمص میں‌فلسطینیوں پر ہرطرح کی تعمیرات پرپابندی عایدکردی گئی۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس علاقے میں دیوار فاصل تعمیر کی گئی اور اس کی سیکیورٹی کے لیے وہاں پرمزید تعمیرات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ایک ماہ قبل اسرائیل کی سپریم کورٹ نے وادی الحمص کے باشندوں کی طرف سے مکانات مسماری کے خلاف کی گئی اپیل مسترد کردی تھی۔ 18 جون کو صہیونی حکام کی طرف سے وادی الحمص کی 16 عمارتوں میں بنائے گئے 100 فلیٹ خالی کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی تھی۔ یہ مہلت 22 جولائی کو ختم ہوگئی۔ مہلت ختم ہوتے ہی صہیونی فوج اور پولیس نے وادی الحمص کے گھروں پر بلڈورز چڑھا دیے۔اس کالونی میں مجموعی طور پر چھ ہزار فلسطینی آباد ہیں جو ب کھلے آسمان تلے سڑکوں پرآگئے ہیں۔

گھروں کی چھت سے محروم شہری سڑکوں پرآگئے
ایک مقامی شہری عبداللہ عبیدیہ جو مکان کی مسماری کے متاثرین میں شامل ہے نے کہا کہ صہیونیوں نے ہماری زندگی ختم کردی اور اب ہم سڑکوں‌پرآگئے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ ہم نے جو کچھ بنایا یا جمع کیا وہ سب غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں غارت ہوچکا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کےنامہ نگار سےبات کرتے ہوئے انہوں‌نے کہا کہ وادی الحمص اسرائیلی کی توسیع پسندانہ منصوبوں کا اگلا ہدف ہے۔ پہلےقابض صہیونی ریاست نے دیوار فاصل تعمیر کرکے وادی الحمص کے مکینوں کا محاصرہ کیا اور اب فلسطینیوں کو وہاں پرسانس لینے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی ہے۔

ایک مقامی شہری محمد ابو ھدوان نے بتایا کہ چونکہ بیت المقدس میں کسی اور مقام پر گھرلینے کی طاقت نہیں رکھتے، اس لیے صور باھر کی وادی الحمص میں آگئے۔ یہاں پر گھرخریدنا نسبتا کم کم قیمت تھا۔ اب پورے بیت المقدس میں کہیں بھی فلسطینیوں کےلیے گھر حاصل کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ ہم نے لاکھوں شیکل کی رقم جمع کرکے فلیٹ خرید کیے اس کے باوجود ہمیں ہرسال ہزاروں شیکل ٹیکس بھی دینا پڑتا۔ اس کے باوجود ہمیں اب اس وادی سے بھی بے دخل کردیا گیا۔ ہمارا سب کچھ چھین لیا گیا۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …