جمعہ , 19 اپریل 2024

سوشل میڈیا پر رواداری اور مکالمہ کا کلچر

(سلمان عابد)

دنیا میں اظہار آزادی کے تناظر میں اب سوشل میڈیا ایک بڑی طاقت بن کر سامنے موجود ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا ایک مقبول میڈیا کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ عمومی طور پر سوشل میڈیا کو نئی سیاسی، سماجی تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ اس نئے میڈیا کو نظرانداز کر کے کسی بھی مہم کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب بڑے بڑے سیاسی مہم جو سوشل میڈیا کو بنیا دبنا کر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب رسمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی بھی اس سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر جو مکالمہ کا کلچر ہے اس میں ہمیں کافی حد تک انتہا پسندی، پر تشدد رجحانات، عدم برداشت، گالم گلوچ، تضحیک کرنا، کردار کشی کرنا، جھوٹی خبریں چلانا اور ذاتی نجی زندگیوں کو موضوع بحث بنانے جیسے مسائل درپیش ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شوشل میڈیا حقیقی طور پر ایک طاقت تو بن گیا ہے، مگر اس میں ذمہ داری کا احساس کا پہلو کمزور ہے۔ لوگ سوشل میڈیا کا استعمال تو جانتے ہیںیا سیکھ رہے ہیں مگر اس بات کا فہم اور ادراک نہیں کہ ہمیں ذمہ دارانہ رویوں کے ساتھ کیسے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے استعمال پر سماجی شعور کی کمی ایک ایسا بنیادی نکتہ ہے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کیونکہ جو بھی ترقی کا نیا زوایہ بغیر کسی سیاسی، سماجی اور اخلاقی شعور کے بغیر سامنے آئے گا وہ انتشار بھی پیدا کرتا ہے۔

پاکستان عملی معنوں میں اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے معاملات سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے۔ انتظامی سطح پر ہم نے اس جنگ سے نمٹنے کے تناظر میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہے۔ دہشت گردی ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہوئی ہے، مگر انتہا پسندی کا پہلو ختم نہیں بلکہ بدستور کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ مسئلہ محض مذہبی انتہا پسندی کا نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، لسانی، علاقائی طور پر بھی ہمارے رویوں میں ایک دوسرے کی قبولیت کے تناظر میں انتہا پسندی کی سوچ غالب نظر آتی ہے۔ عد م برداشت کا کلچر بہت تیزی سے سماج میں غالب نظر آتا ہے اور لگتا ہے کہ ہم اپنی مرضی کی سوچ، فکر اور خیالات کو دوسروں پر زبردستی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی ہماری بات کو تسلیم نہیں کرتا یا اس کا حامی نہیں ہوتا تو ہم پر تشدد سوچ اور فکر کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ ہم دوسروں کے خیالات، سوچ اورفکر پر مبنی بیانیہ کو عزت و احترام دینے کے لیے تیار نہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم ہر ایک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی نظریات کے حامی بن جائیں یا ان کے خیالات سے اتفاق کریں۔ لیکن کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم دوسروں کے مختلف خیالات کے باوجود آپس میں رواداری، برداشت اور سماجی قبولیت کے رویوں کو فوقیت دیں۔ کیونکہ جو بھی سماج Diversityکے بنیادی اصولوں پر قائم ہوگا وہی معاشرہ پرامن، مہذہب اور ذمہ دارمعاشرہ ہوسکتا ہے۔ یہ رویہ عمومی طور پر سماج میں مختلف خیالات کے باوجود ایک دوسرے کے درمیان باہمی رشتوں میں احترام انسانیت کو پیدا کرتا ہے اور سب کو محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ ہمارے خیالات مختلف ہیں لیکن معاشرہ ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت سماج میں سیاسی، سماجی، علاقائی، لسانی اور مذہبی تقسیم نہ صرف گہری ہوتی جارہی ہے بلکہ اس میں نفرت اور دشمنی کی سیاست بھی پنپ رہی ہے جو خود ایک بڑا خطرہ ہے۔

اس پہلو کا سماجی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم مکالمہ کرتے وقت کیوں الجھ جاتے ہیں اور اس الجھاو میں ہم صبر کا دامن چھوڑ کر جذباتیت کے پہلو سے جڑ جاتے ہیں جو منفی ردعمل کی سیاست کو جنم دیتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سے سنجیدہ حلقوں میں افراد یا اداروں کی سطح پر سوشل میڈیا میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے کلچر پر پریشانی ہے۔ بالخصوص نئی نسل میں جو غصہ اور ردعمل کی سیاست ہے اس کا ایک بڑا منفی پہلو ہمیں سوشل میڈیا کے استعمال میں غالب نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا نے سماج میں ردعمل کے تناظر میں ایک نئی طرز کی سیاست کو جنم دیا ہے اور اس کا مثبت پہلو بھی ہے۔ لوگ فوری طور پر مختلف پالیسیوں، قانون سازی، حکمرانی اور شخصیات کے ساتھ جڑے تضادات پر سخت ردعمل دیتے ہیں اور یہ طاقت ور طبقات پر ایک دباو کی سیاست کو بھی جنم دیتا ہے۔

سوشل میڈیا کے مثبت استعما ل کے تناظر میں تین اہم پہلو ہیں۔ اول لوگوں میں سوشل میڈیا کے استعمال پر سیاسی اور سماجی شعور کو اس حد تک بڑھایا جائے کہ لوگ سمجھ سکیں کہ ہمیں اس میڈیا کا کیسے مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہے جو حقیقی طور پر رواداری اور مکالمہ کے کلچر کو تقویت دے۔ دوئم ہمیں نوجوان نسل اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں سوشل میڈیا کے استعمال اور اس سے جڑے سائبر کرائم ایکٹ یا قوانین کے بارے میں پڑھایا جائے اور اسے عملی طور پر ہر ڈسپلن کے لیے نصاب کا حصہ قرار دیا جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ سوشل میڈیا سے جڑے قانون بھی موجود ہیں جو کوڈ آف کنڈکٹ کے دائرہ کار کو مضبوط بناتا ہے اور اس کا استعمال لازمی ہے۔ سوئم ہمیں سوشل میڈیا کے استعمال کے تناظر میں اس کی نگرانی، جوابدہی یا احتساب کے عمل کو شفاف بنانا ہوگا۔ کیونکہ ایسے لوگ جو سوشل میڈیا کو سیاسی، سماجی اور مذہبی نفرت یا تعصب یا پر تشدد رجحانات کے لیے استعما ل کرتے ہیں ان کو قانون کے دائرہ کار میں لاکر احتساب کرنا ہوگا۔

یہ جو ہم ففتھ جنریشن وار یا انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے پر زور دیتے ہیں اور اس میں نوجوان نسل کو بنیاد بنا کر اس جنگ میں کامیابی چاہتے ہیں وہ نوجوانوں کا اس جنگ میں بطور امن کے سفیر کے طور پر شمولیت سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا کو امن، روداری، مکالمہ اور برداشت سمیت قبولیت کے کلچر کو مضبوط بنانے کے لیے ہمیں اس میڈیا سے مختلف نوعیت کی مہم جوئی کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس مہم میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے شاعر، ادیب، دانشور، صحافی، استاد، کھلاڑی، فن کار، علمائے کرام سمیت دیگرطبقات کو شامل کرنا ہوگا جو نئی نسل میں اس پیغام کو عام کریں کہ ہمیںسوشل میڈیا کو مختلف نوعیت کے قومی مسائل کے خاتمہ میں استعمال کرنا چاہیے اور جو لوگ انفرادی یا اجتماعی سطح پر اس میڈیا کا منفی استعمال کررہے ہیں ان کے خلاف دباو کی سیاست کو بڑھانا ہوگا تاکہ ان پر دباو بڑھا کر ایسی سوچ اور فکر کو ختم کیا جائے جو نفرت کی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں جو لاکھوں میں اپنے سیاسی کارکن رکھتی ہیں اور بڑے بڑے سیاسی قائد لاکھوں کی تعداد میں اپنا ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں اور ووٹروں میں بھی سوشل میڈیا کے استعمال پر سماجی، علمی اور فکری تربیت پر زور دیں اور خود کو بھی ذمہ دار سیاسی قیادت کے طور پر پیش کریں اور اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو بھی ترغیب دیں کہ وہ اپنی سوچ میں انتہا پسند رجحانات کو ختم کریں اور اعتدال یا میانہ روی کا راستہ اختیار کریں۔ اہل دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قوم میں سوشل میڈیا کے تناظر میں ایک نیا قومی بیانیہ ترتیب دیں کہ کیسے یہ معاشرہ اور اس سے جڑے افراد امن اور رواداری کے کلچر کو تقویت دیں۔ گالم گلوچ، نفرت، تعصب اور ذاتیا ت کی کردار کشی جیسی مہم کے خلاف ہمیں ایک مضبوط سیاسی، سماجی اور علمی و فکری تحریک کی ضرورت ہے اور اس عمل میں نوجوانوں کو فوقیت دینی ہوگی۔ کیونکہ معاشرے محض قانون سازی سے درست نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے قانون سازی سمیت مجموعی طور پر معاشرے کے مزاج کو بھی پرامن اور رواداری پر مبنی بنانا ہوگا۔

یہ جو پاکستان کے بارے میں داخلی اور خارجی محاذ پر منفی اور انتہا پسندی پر مبنی تصورات موجود ہیں جو ہر جگہ ہمیں غیر ذمہ دارانہ معاشرہ کے طور پر پیش کرتا ہے اس کے خلاف ہمیں خود جنگ لڑنی ہے۔ یہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ علمی اور فکری محاذ پر لڑنی ہے۔ اس جنگ کا ایک بڑا مرکز سوشل میڈیا ہے۔ اگر ہم نے اس جنگ سے نمٹنے کے لیے سوشل میڈیا کے موثر استعمال کے لیے موثر سیاسی و سماجی حکمت عملی ریاست یا حکومت یا معاشرہ کے طور پر اختیار کرلی تو ہم یہ جنگ جیت کر خود کو ایک مہذہب معاشرے کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔بشکریہ ہم سب نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …