بدھ , 24 اپریل 2024

آئین کھانستا ہوا بابا ہے

(وسعت اللہ خان)

میرا دکھ اور بڑھ جاتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کہاں جا رہی ہے، معیشت منھ کے بل کیوں گر رہی ہے، اپوزیشن کیوں اتاولی ہو رہی ہے اور میڈیا آخر میسر آزادی پر قناعت کے بجائے مزید آزادی کیوں چاہتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ حکومت جو بھی اقدامات کر رہی ہے یا اس سے کروائے جا رہے ہیں وہ سب نیند میں چلتے ہوئے نہیں بلکہ کھلی آنکھوں ہو رہے ہیں۔اور یہ سب ملک و قوم کی بہتری کے لئے ہی ہے۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ماضی میں کچھ بھی ملک و قوم کی بہتری کے لیے نہیں ہوا۔ جو کچھ ہو رہا ہے آج ہی ہو رہا ہے۔چنانچہ ہم سب کو موجودہ حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اس کی پنڈلیاں مضبوط کرنی چاہئیں۔ اگر یہ حکومت نہ رہی اور کوئی اس سے بھی خراب آ گئی تب اچھے رہو گے؟

کیا تمھیں یاد نہیں کہ ایوب خان کی اچھی بھلی ترقی نواز حکومت کو گرا کر کیا ملا؟ یحییٰ خان؟ اور پھر کون آیا؟ بھٹو؟ اور بھٹو کو گرا کے کون اس ملک کے نصیب میں آیا؟ ضیا الحق؟ اور ضیا الحق کی موت کے بعد بے نظیر، نواز شریف، پرویز مشرف، زرداری اور پھر نواز شریف اور اب عمران خان۔

آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ کوئی ایسا حکمران جو عمران خان کو بھی برطرف کرے اور نااہل قرار دے کر جیل میں ڈال دے؟ اور پھر پوری سلیٹ تھوک سے مٹا کر دوبارہ سے اے بی سی ڈی پڑھانا شروع کر دے؟عمران خان یا کوئی اور سیاسی خان۔ پاکستان میں کسی بھی وزیرِ اعظم پر برسنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے بس کے کرائے میں اضافے کا ذمہ دار کلینر کو قرار دے کر گالیاں دیں جبکہ وہ بیچارا تو خود کسی سیٹھ کا دہاڑی دار ہے۔

یا کسی فلاپ فلم کی ذمہ داری ہیرو پر ڈال دی جائے جبکہ اصل ذمہ دار تو ڈائریکٹر ہے جس نے کسی تھکیلے سے اسکرپٹ کو فلما کر ناظرین کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ یا پلاٹ پر قبضہ کرنے والے زور آور تک رسائی نہ ہو تو پلاٹ پر بیٹھے چوکیدار کو پیٹ دیا جائے۔کیا فائدہ ایسی بچگانہ حرکتوں کا اور کمزوروں پر غصہ نکالنے کا؟ چاند کو گل کریں تو ہم جانیں۔اب میڈیا کو ہی دیکھ لیں۔ بیشتر صحافیوں کو یقین ہے کہ ان پر جو بھی پابندیاں ہیں، عمران خان نے لگائی ہیں۔

چینلز کی نشریات وہی معطل کروا رہے ہیں، وٹس ایپ پر میڈیا کو روزمرہ ہدایات انھی کی طرف سے دی جاتی ہیں، چینل پر کس کی پٹیاں چلیں گی، کس کا جلسہ کور ہو گا، کسے اشتہارات ملیں گے، کس کا انٹرویو نشر ہو کہ چلتا انٹرویو اتروا دیا جائے؟ یہ سب عمران خان بتوسط فردوس عاشق اعوان یا پیمرا کر رہے ہیں۔

آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ اگر یہ سب عمران خان کروا رہا ہوتا تو کیا وہ واشنگٹن میں امریکی صحافیوں اور اسٹیببلشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ رہا ہوتا کہ پاکستان میں میڈیا نہ صرف امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ آزاد بلکہ آپے سے باہر ہے۔جس حکومت کا زور زیادہ سے زیادہ عرفان صدیقی پر چل سکتا ہو اس پر بلاوجہ مسلسل تنقید نری زیادتی ہے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس وقت جتنی بھی جمہوریت یا آزادیاں میسر ہیں وہ سب آمریت کی دین ہیں۔ رہی بات آئین کی تو ہم سب اس کا بھی بہت احترام کرتے ہیں، چومتے ہیں اور پھر اونچی جگہ رکھ دیتے ہیں تاکہ گھر میں برکت رہے۔بالکل اس کھانستے ہوئے بابے کی طرح جس کی گھر میں عزت تو بہت ہے پر سنتا کوئی نہیں۔بشکریہ بی بی سی

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …