ہفتہ , 20 اپریل 2024

حماس اور ایران کا اسرائیل کےخلاف تزویراتی اتحاد!

حال ہی میں اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد نے ایران کا دورہ کیا۔ حماس کی قیادت کے وفد کو ایران میں غیرمعمولی اہمیت دی گئی اور ایران کی اعلیٰ ترین قیادت نے حماس کا استقبال کیا۔ حماس کے وفد کی قیادت جماعت کے سیاسی شعبے کے نائب صدر صالح العاروری نے کی۔ ایرانی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں انہوں‌ نے زور دے کرکہا کہ حماس اس وقت مسلم امہ کی فرنٹ لائن پر صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے کھڑی ہے۔ اس وقت حماس کی وحدت اور اس کی پیش قدمی کو روکنے کی سازشوں کے ساتھ حماس کو کمزور کرنے اور اسے دیوار سے لگانے کی پالیسی پرعمل کیا جا رہا ہے۔

تاریخی تعلقات
حماس اور ایران کے درمیان سنہ 1990ء سے خوش گوار برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔ حماس کے قیام کے بعد فلسطین مختلف انتفاضہ تحریکوں سے گذری۔ ایران نے ان تحریکوں کی بھرپور حمایت کی۔ یوں ایران کی طرف سے فلسطینی قوم کے حقوق کی پرزور حمایت نے حماس کو تہران کے قریب کردیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ دونوں کےدرمیان تزویراتی تعلقات مضبوط ہوتےچلے گئے۔

حماس اور ایران کے درمیان اگرچہ کوئی نظریاتی ہم آہنگی نہیں مگر اس کے باوجود خطے میں ایرانی توسیع پسندی، فلسطینی حقوق غصب کرنے کی صہیونی پالیسی اور خطے کو عدم توازن سے دوچار کرنے کے لیے اسرائیل عزائم کے خلاف حماس اور ایران ایک صفحے پر ہیں۔ حماس اور ایران دوسرے ممالک کے اندورنی امور میں مداخلت سے گریز کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے خطے میں ایرانی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک صفحے پرہیں۔

ایک دشمن
فلسطینی تجزیہ نگار ساری عرابی کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ‘حماس’ اس وقت ایک کشتی پر سوار ہیں۔ اس لیے نہیں کہ دونوں‌کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے بلکہ حماس اور ایران کا اتحاد اس لیے ہے کیونکہ دونوں کا دشمن ایک ہے۔ نیز دونوں کو خطے میں ایک جیسے حالات کا سامنا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست قضیہ فلسطین کا تصفیہ کرنا چاہتا ہے۔ مزاحمت کے گرد گھیرا تنگ کرکےمزاحمت کچلنے اور اس کے مالی ذرائع بند کرنے کی سازش جاری ہے۔ اس سازش میں اسرائیل کے ساتھ امریکا بھی پیش پیش ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کا ایک پہلو بھی تہران کی فلسطینیوں کے لیے حمایت ہے۔

فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ حماس اور ایران کے درمیان تزویراتی تعلقات کا مقصد مزاحمت کے محور کو مضبوط بنانا اور امریکا اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ، غاصبانہ اور جارحانہ عزائم کو ناکام بنانا ہے۔

بڑے چیلنجز
فلسطینی سیاسی امور کے ماہر ایاد الشوربجی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حماس اور ایران دونوں کو ایک جیسے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ایران اور حماس دونوں‌کی مالی ناکہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس طرح حماس اور ایران کو ایک دوسرے کے مزید قریب آنے کا موقع ملا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شوربجی نے کہا کہ حماس اور ایران کے کئی مشترکہ مفادات ہیں۔ حماس خطے کے ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں ہے مگر یہ تعلقات فلسطینی مزاحمت کے محور گھومتے اور قضیہ فلسطین کےدفاع کے اصول کے تحت ہیں۔انہوں نے کہا کہ حماس نے ایران کے ساتھ تعلقات تہران کےفلسطینی مزاحمت اور قضیہ فلسطین کی حمایت کی بنیاد پر استوار کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …