بدھ , 24 اپریل 2024

افغانستان کے سرحدی علاقوں سے پاک فورسز پر حملے

(تحریر: طاہر یاسین طاہر)

تاریخ اپنے سینے میں جو راز رکھتی ہے، انہیں کھرچنے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ وہ راز وقت کی کروٹ کی ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ جنوں ہے کہ افغان ہمارے دینی بھائی ہیں، ہم نے ان کی مدد کی، ان کو اپنے ملک میں رہنے کو جگہ دی اور ان کی خاطر اپنے سماج تک کو دہشت گردی، اسلحہ، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کی زد میں دے دیا۔ افغانوں کی تاریخ مگر پاکستان کے حوالے سے انتہائی متعصبانہ اور جارحانہ رہی۔ جنھیں یہ زعم ہے کہ "نہتے” افغانوں نے دنیا کی دوسری سپر پاور روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، انہیں تاریخ کو عقیدت کے بجائے تنقیدی مضمون کے طور پر پڑھنا چاہیئے۔ مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کرنے میں افغانستان سب سے آگے تھا جبکہ پاکستان کو بحثیت ریاست تسلیم کرنے میں ایران افغانستان پر سبقت لے گیا تھا۔ تعصب یا دل لگی کی بنا پر کیا گیا تجزیہ درست نتائج نہیں دیتا۔ دل کا معاملہ دل لگی نہیں ہوتی۔

بارہا لکھا، مکرر عرض ہے، روس کے ٹکڑے افغان مجاہدین نے "جہادی” جذبے سے نہیں کیے تھے، بلکہ امریکی ڈالروں اور پاکستانی پالیسی سازوں کی پالیسیوں نے روس کو افغانستان میں ہی الجھائے رکھا۔ یہاں تک کہ روس کی معیشت برباد ہوگئی اور طویل رقبے پر پھیلی روسی ریاست چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ ہاں افغان "مجاہدین” کی ذہن سازی کرنے میں ایسے پالیسی سازوں نے اپنا کردار ادا کیا، جنھوں نے اس جنگ کو "جہاد” کا نام دیا۔ افغانوں کو باور کرایا کہ یہ جنگ نہیں جہاد ہے، بلکہ دنیا بھر کے نیم پڑھے لکھے اور ظواہر پرستوں کو پاکستانی راستوں سے افغانستان میں داخل کیا اور آج ان کا نام و نشان نہیں ملتا، وہ اسامہ بن لادن، زرقاوی، گلبدین سمیت مختلف ٹکڑوں میں بٹے "جہادی گروپوں” کی جنت فروشی کے ایسے خریدار بنے کہ اب خدا خبر کس حور کے پہلو میں بدلتے افغانستان کو دیکھ کر "اشک” بہاتے ہوں۔

جب بھی افغانستان کی سرحدی چوکیوں سے پاک فورسز پر حملے ہوتے ہیں تو ہمیں تجزیہ کرتے ہوئے یک رخا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیئے، ورنہ نتیجہ وہی روایتی نکلے گا، کہ افغان "مجاہدین” اپنی سرزمین کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ فرض کریں کہ وہ اپنی سرزمین کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو حملے پاکستان پر کیوں کیے جاتے ہیں؟ افغانوں کی تباہ کاریوں میں پاکستان نے بھی اپنا حصہ خوب ڈالا۔ یہ مگر ریاستی ضرورت تھی۔ ایک جملے نے افغان جہادیوں کو بلکہ سارے افغانوں کو بہت مہمیز کیا "افغان باقی کہسار باقی” ایک "نظریاتی قومی روزنامے” کے کسی صفحے کی پیشانی پر بھی یہ جملہ عشروں لکھا نظر آتا رہا۔ کہسار تو اب باقی ہیں مگر افغانوں کو تو دیکھیے؟ ڈھونڈیئے؟ وہ کہاں ہیں؟ زندگی جذبوں کے سہارے نہیں گزرتی، اس کے لیے حکمت اور عقل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

افغان مجاہدین نامی جتھے اگر اپنے ملک کے ساتھ وفادار ہوتے تو روسی فوجیں جب افغانستان سے نکلیں تھیں تو یہ سارے گروہ بیٹھ کر مشترکہ حکومت تشکیل دیتے۔ انھوں نے مگر اسلام کو بھی اپنا قبائلی جامہ پہنانے کی کوشش کی بلکہ پہنا ہی دیا۔ جس کا نتیجہ نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت میں سامنے آیا۔ بھلا اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی کیا ضرورت تھی؟ جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو ملا عمر کو فوری طور پر اسامہ بن لادن اور دیگر فراری امریکہ کے حوالے کر دینے چاہیئے تھے۔ اس سے افغانستان بھی بچ جاتا اور خطہ بھی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں نہ آتا۔ وہ لوگ کم فہم اور جذباتی ہیں، جو کہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد سابق جنرل پرویز مشرف ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوگئے۔ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہ تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت نہ کرے۔ پاکستان کا فیصلہ بالکل درست تھا۔ ہاں اس پر بات ہوسکتی ہے کہ یہ فیصلہ کر لینے کے بعد غلطیاں کہاں کہاں ہوئیں۔؟

کیا یہ بات سچ نہیں کہ افغانستان ہی وہ واحد ملک ہے، جس نے ہمیشہ پاکستان مخالف قوتوں کو پناہ گاہیں دیں، ان کے ٹریننگ کیمپوں کا بندوبست کیا اور پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے میں اپنا پورا زور لگایا؟ یہ بات درست ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی جائے پناہ ہمیشہ افغانستان رہی، وہی سے وہ یورپ اور امریکہ کے دورے کرتے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں انتہائی مطلوب افراد کی پناہ گاہیں افغانستان میں تھیں اور ہیں۔ دہشت گرد ریاض بسرا تو دو چار عشرے پہلے کی بات ہے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا امیر ملا فضل اللہ آج بھی افغانستان کے اندر افغانستان کی ریاستی سرپرستی میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اگر افغان حکومت چاہے تو کم از کم اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روک سکتی ہے۔ لیکن وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ یہ امر واقعی ہے کہ بھارت، موساد اور دیگر عالمی ایجنسیاں افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں، لیکن بحیثیت ریاست کیا افغان حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟”

گذشتہ روز شمالی وزیرِستان میں پاک افغان سرحد پر پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر افغانستان کے سرحدی علاقے سے حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 6 جوان شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے یہ حملہ افغانستان کے سرحدی علاقے گردیز سے کیا گیا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سرحد پار سے دہشت گردوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اہلکاروں کی شہادت کو امن کی راہ میں بڑی قربانی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں امن قائم کیا جاچکا ہے، اب یہاں سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا تھا کہ دشمن قوتیں بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں، جبکہ بلوچستان کے ضلع تربت میں دہشت گردوں کی جانب سے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں پر حملے میں کیپٹن سمیت 4 اہلکار شہید ہوگئے۔”

دیکھا جائے تو افغانستان کے سرحدی علاقے سے دہشت گردوں کے دو حملے وزیراعظم عمران خان کے کامیاب دورہ امریکہ کی دلیل بھی ہیں کہ دشمن بوکھلاہٹ کا شکار ہوا۔ افغانوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر پاکستان نے جوابی وار کیا تو دو چار گھنٹوں کے ٹارگٹڈ آپریشن میں اپنے سارے اہداف حاصل کر لے گا۔ افغان طالبان دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ امریکہ سے مذاکرات بھی کرتے ہیں اور ساتھ امریکی افواج پر حملے بھی، بالکل اسی طرح افغان حکومت پاکستان سے تعلقات کو مستحکم کرنے کی بات بھی کرتی ہے، مگر اپنے اصل ہدف یعنی پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے میں غیر ریاستی عناصر کی مدد بھی کر رہی ہے۔ پاک افغان سرحد اگرچہ طویل تر ہے لیکن ان شاء اللہ اس پر سکیورٹی باڑ ہر حال میں مکمل ہوگی۔

افغان طالبان ہوں یا پاکستان میں بیٹھے ان کے دیگر ہمدرد، جان لیں کہ وطن کی مٹی کے لیے ہر پاکستانی پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہے، خواہ وہ استاد ہے یا ڈاکٹر، شاعر ہے یا ادیب، کالم نویس ہے یا افسانہ نگار۔ ہمیں افغان پالیسی کے حوالے سے اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ جب بھی افغانوں کا دل کرے، وہ دہشت گردوں کے جتھوں کے ذریعے پاکستان پر حملہ کرنے کی شرمناک کوشش کریں۔ امریکہ تو افغانستان کو فتح کرنے آیا ہی نہیں تھا، ورنہ یہ کرائے کے مجاہدین اس کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ وہ انہیں دو چار ماہ میں ختم کر دیتا، اس کا ہدف خطے میں اپنے ٹھکانے مضبوط کرنا تھا، جو وہ کرچکا ہے۔ یاد رہے طالبان امریکہ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں، جبکہ افغان سرحدی علاقوں سے پاکستان پر ٹارگٹڈ حملوں کے امکانات زیادہ ہیں۔ ہمیں اپنی پالیسی پر پھر سے ایک نظر ڈالنا ہوگی۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …