(منصور آفاق)
پرویز بٹ میرے دوست ہیں ان کی بیٹی حنا پرویز بٹ مریم نواز کی دوست ہے۔ میں نے پی ٹی وی کے لئے ’’نمک‘‘ سیریل کیا تھا تو اس میں پرویز بٹ نے اداکاری کی تھی یعنی اُس ارب پتی شخصیت کے اندر ایک فنکار بھی موجود ہے۔ حنا پرویز بٹ نے مریم نواز کے متعلق بھی یہ انکشاف کیا ہے کہ ان کے اندر بھی ایک اعلیٰ درجے کی فنکارہ موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’مریم نواز کی آواز بہت خوبصورت ہے، وہ بہت اچھا گانا گاتی ہیں اور ڈھولک بھی بہت اچھی بجاتی ہیں‘‘ ان کی سیاسی پرفارمنس دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کے اندر کتنی صلاحیتیں ہیں۔ میں ان کی تقاریر کی وڈیوز بڑے دھیان سے دیکھتا رہتا ہوں۔ بہرحال اب تو تقریباً تمام ویڈیو پلیئرز تھم چکے ہیں۔ بلیک میلنگ کا معاملہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ اقتدار کے سرد خانے میں بڑی بڑی فلمیں چپ چاپ پڑی ہیں۔ نیب کے افسران آج کل اِس سرد خانے میں آگ جلا کر ہاتھ تاپ رہے ہیں۔ بہت پرانی فلمیں جھاڑ پونچھ کر باہر نکالی جا رہی ہیں۔ اکائونٹس کے شارٹس ریوائنڈ کرکے بار بار دیکھے جا رہے ہیں۔ جہاں 2010-11میں مریم نواز کو 3کروڑ روپے کے تحائف دئیے گئے،2011-12 میں انہیں 5 کروڑ اور 2012-13 میں ساڑھے تین کروڑ کے تحائف اُن کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ سال 2013-14میں سوا 19کروڑ روپے کے تحائف ان کی بارگاہ میں جلوہ گر ہوئے۔ 2014-15میں ملنے والے تحائف کی مالیت 31کروڑ روپے ہے۔
سال 2015-16کے دوران سوا 17کروڑ روپے کے انہیں گفٹس ملے۔ افسوس انہیں 2018اور 2019میں تحائف نہیں ملے شاید اس لئے کہ ان سالوں میں ان کی حکومت نہ پنجاب میں رہی نہ مرکز میں۔ان کے اکائونٹس میں تحائف 2002ء سے آ رہے ہیں۔ یو اے ای سے یہ تحائف سیف بن جابر اور نصیر عبداللہ نے بھجوائے۔ یہ دونوں خالصتاً عرب ہیں۔ سعودی عرب سے حانی احمد نے بھجوائے، یو کے سے شیخ ذکا الدین نے بھی رقم بھیجی۔ نیب نے جب مریم نواز سے ان کروڑوں اربوں روپے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا ’’آپ یہ بات عباس شریف یا کلثوم نواز سے پوچھیں۔ یعنی عالم بالا میں تشریف لے جائیں اور ان سے تفتیش کریں۔ نیب کے لوگوں نے جب کہا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں، ہم کیسے اُن سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں؟ تو فرمایا ’’اچھا تو پھر مجھے ٹائم دیں۔ یعنی میں خود پوچھ کر آئوں گی تو آپ کو بتائوں گی۔ مریم نواز جب نیب کے دفتر میں گئیں تو سب سے پہلے کافی کی فرمائش کی جیسے حنا پرویز بٹ کے گھر میں تشریف لائی ہوں۔ وہ حنا پرویز بٹ کے گھر اکثر آتی رہتی ہیں۔ وہیں انہوں نے ایک سابق چیف جسٹس کی بیٹی کے ساتھ بھی ملاقات کی تھی مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا تھا۔ بہرحال نیب نے مریم نواز کے لئے اعلیٰ درجے کی کافی کا فوری طور پر بندوبست کیا۔ نیب کے ڈی جی شہزاد سلیم بھی شوق سے کافی پیتے ہیں مگر گھر جاکر، دفتر میں نہیں۔ البتہ نیب کے ہیڈ کوارٹر میں کافی بڑی اچھی ملتی ہے۔ گزشتہ دنوں وہاں جو کافی پی تھی اُس کا ذائقہ ابھی تک محسوس ہو رہا ہے۔ نیب نے محترمہ سے تحائف کے متعلق کچھ زیادہ معلوم نہیں کیا۔ ہاں 2013ء میں سے انہیں ملنے والی ٹی ٹی کے بارے میں بار بار پوچھا کہ وہ کہاں سے آئی تھی، کس نے بھیجی تھی، کیوں بھیجی تھی جس سے چوہدری شوگر ملز میں شیئر کی خریداری کی گئی۔ خیر یہ تو نیب والے جانتے تھے کہ یہ چار کروڑ اسی لاکھ یعنی تقریباً پانچ کروڑ ڈالر کی ٹی ٹی دبئی سے آئی تھی۔
مگر کیوں آئی تھی یہ تو صرف مریم نواز ہی بتا سکتی ہیں۔ نیب کو دراصل خدشہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ رقم پہلے ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجی گئی ہو اور پھر واپس آئی ہو جیسے شہباز شریف اور ان کی فیملی کا کیس ہے۔ انہوں نے انارکلی کے ایک منی چینجر سے پہلے پیسہ باہر منتقل کیا اور پھر مختلف لوگوں کی طرف سے یہی رقم ٹی ٹی ہو کر واپس پاکستان آئی۔ جن لوگوں کی طرف سے آئی، وہ سارے پاکستانی ہیں اور ان کے پاسپورٹ بھی نہیں بنے ہوئے۔ وہ کبھی ملک سے باہر گئے ہی نہیں۔ یہ تمام لوگ اس وقت نیب کی تحویل میں ہیں- اس حوالے سے ابھی تک جس رقم کا سراغ ملا ہے وہ 26ملین ڈالر ہے اور یہ رقم یہاں ان کے تمام بزنسز میں انویسٹ کی گئی ہے۔ بہرحال مریم نواز یہ بتانے سے قاصر رہیں کہ وہ کس طرح اس وقت چوہدری شوگر ملز کیس میں سب سے بڑی شیئر ہولڈر ہیں۔ نیب کے کیسز کا ایک مسئلہ یہ ضرور ہے کہ فیصلے جلدی نہیں ہوتے۔ اس سوال کے جواب میں نیب کا کہنا ہے کہ وہ تو وقت پر تمام تفتیش مکمل کرکے کیس عدالت میں بھیج دیتے ہیں۔ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ جلدی فیصلہ کرے سزا دینی ہے سزا دے، رہا کرنا ہے تو رہا کر دے۔ میرے خیال میں اس بات پر سپریم کورٹ کو توجہ دینا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات کیلئے ماڈل کورٹ بنائے ہیں، بے شک وہ بہت اچھا عمل ہے مگر کرپشن تو پوری قوم کا قتل ہے، اس کیلئے بھی سپریم کورٹ کو ماڈل کورٹ بنانا چاہئیں خاص طور پر لاہور، کراچی اور پنڈی؍اسلام آباد کی احتساب عدالتوں کو ماڈل کورٹ میں تبدیل کیا جائے اور سب سے پہلے ان میں سیاست دانوں کے مقدمات سنے جائیں تاکہ ان کا فیصلہ جلد سے جلد ہو۔ اس کے بعد بیورو کریسی کی باری آنی چاہئے، پھر سرمایہ داروں کی۔
آصف علی زرداری کی سولہ کمپنیوں کے کیس کا عبوری ریفرنس بھی نیب کی عدالت میں دائر کر دیا گیا ہے۔ اس میں آصف علی زرداری، محمد اقبال نوری، محمد حنیف، حسین لوائی، عبدالغنی مجید، اسلم مسعود، خواجہ انور مجید، طحہ رضا، فاروق عبداللہ، شیر علی محمد سلیم فیصل گرفتار ہیں اور عزیر نعیم اور تین لوگ اور مفرور ہیں۔ ہر شخص کے نام ایک کمپنی ہے کل سولہ کمپنیاں ہیں ان تمام کمپنیوں کے اصل مالک آصف علی زرداری ہیں یہ لوگ ان کمپنیوں کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے آصف زرداری کے فرنٹ مین کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان میں سے دو ملزمان نے پلی بارگین کرلی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ان دونوں ملزمان نے 2.12ارب روپے دئیے ہیں۔ ان دونوں ملزمان آصف محمود اور عارف علی نے سندھ حکومت کے افسران سے مل کر کرپشن کی تھی۔ اس پلی بارگین کی وجہ سے آصف علی زرداری کی مشکلات میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں شریف فیملی اور زرداری فیملی کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں کہ وہ پلی بارگین کی پتلی گلی سے ہوکر جیلوں سے نکل آئیں۔بشکریہ جنگ نیوز