ہفتہ , 20 اپریل 2024

امریکہ سے معاشی تعلقات کی قیمت

(عارف بہار)

”امن واستحکام کے لیے کام : معاشی خوش حالی قائم کرنا ” کے عنوان سے وائٹ ہائوس سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ میں پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید بڑھانے اور مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے ۔فیکٹ شیٹ میں کہا گیا ہے امریکہ اور پاکستان کے درمیان سٹریٹجک تعلقات بہتر ہونے سے تجارتی تعلقات مزید بڑھ سکتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکہ اور پاکستان مضبوط معاشی شراکت دار ہیںجن سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔پاکستان اور امریکہ نے گزشتہ سال چھ ارب ساٹھ کروڑ ڈالر مالیت کی اشیاء کی تجارت کی جو باہمی تجارت کا نیا ریکارڈ ہے۔فیکٹ شیٹ کے مطابق امریکی حکام نے پاکستان پر بھارت اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ تجارت کی سہولت فراہم کرنے پر بھی زور دیا ہے اور کہا ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا ئی خطے کے درمیان تجارت میں اضافے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو فائدہ پہنچے گا۔وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو مزید دس سے بیس گنا اضافہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی بہت محنتی اور شاندار لوگوں ہیں اور پاکستان ایک بڑا بلکہ حقیقتاََ بہت بڑا ملک ہے ۔ان کی مصنوعات بہت میعاری ہوتی ہیں اور اس کا ذاتی تجربہ مجھے اس وقت سے ہے جب میں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کررہا تھا۔پاکستان اور امریکہ تعلقات کا ہمہ جہتی بگاڑ اب یوٹرن لیتا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔گزشتہ بیس برس ان تعلقات کی دنیا میں تاریکی ،شک ، دوہری پالیسیاں،خوف اور مخاصمت ہے۔دونوں ملک جوں جوں دور ہوتے چلے گئے دونوں کی مشکلات بڑھتی چلی گئیں ۔

امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف جو پراکسی جنگ افغانستان میں لڑی تھی اس کی فتح کا پورا نہ سہی ایک چوتھائی سہرہ پاکستان کے سر بھی سجتا ہے ۔پاکستان نے اپنی سرزمین اور دماغوں کو وقف کرکے امریکہ کو زمینی حقائق سے آشنا اور قریب تر جنگی حکمت عملی اپنائے رکھنے پر مجبور کیا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت یونین کے قدم زمین پر ٹک نہ سکے اور یہاں تک کہ ایک روز اسے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اس اعلان کے ساتھ کہ ”ہم دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کریں گے” دریائے آمو عبور کرنا پڑا۔ امریکہ خود افغانستان میں آیا تو پاکستان کے ساتھ اس کا معاملہ بن نہ سکا کیونکہ اب ان تعلقات میں ایک تیسرا کردار بھارت بھی سینگ پھنسا چکا تھا اور یہ بات پاک امریکہ تعلقات کو گھن کی طرح اندر ہی اندر چاٹ کھاتی رہی ۔اس طرح امریکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں کلی فاتح نہ بن سکا بلکہ فتح کی تلاش اور تعاقب میں ڈیڑھ عشرہ ضائع ہو گیا ۔اس کے بعد امریکہ نے پاکستان کو چھوڑ دیا تو پاکستان کی معیشت کے لئے برے دنوں کا آغازہوگیا ۔پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ قربتوں کا عادی امریکہ کا ہی تھا اور اس عادت نے امریکہ پر اس کا انحصار بڑھا دیا تھا ۔امریکہ کا ساتھ چھوٹ جانے کے بعد پاکستان کی معیشت زوال کا شکا ر ہوتی چلی گئی ۔امریکہ نے پاکستان میں ایسے حکمرانوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی بالواسطہ طور پر جاری رکھی جنہوں نے ملک سے سرمائے کو مختلف طریقوں سے بیرونی دنیا میں منتقل کرکے دولت کے انبار کھڑے کئے ۔برین ڈرین کے ساتھ سرمائے کی منتقلی دونوں کی امریکہ نے جم کر حوصلہ افزائی کی ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی معیشت مکمل طور پر آکسیجن ٹینٹ پر آگئی اوراس ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں زباں زد خاص وعام ہونے لگیں۔پاکستان مکمل طور پر عالمی معاشی اداروں کے رحم وکرم پر رہ گیا اور امریکہ ان اداروں کے ذریعے پاکستان کی کلائی مروڑنے کی پالیسی اپنائے ہوئے رہا ۔آج ملکی معیشت سو فیصد ہی مصنوعی تنفس کی محتاج اورمرہوں منت ہے ۔پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ سے جہاں امریکہ افغانستان میں فتح سے دورہوکر رہ گیا وہیں امریکہ کی عنایتوں اور مہربانیوں سے پاکستان کی معیشت ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی ۔جس پر یہ شعر صادق آتا ہے

ترک ِتعلقات پہ رویانہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں

اب امریکہ اور پاکستان دونوں کو اس نقصان کا احساس ہوگیا ہے ۔امریکہ پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات کووسعت دینے کا خواہاں ہے مگر اس تعلق اور مہربانی کی قیمت کیا ہے؟ اس نئی کہا نی میں یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے ۔دونوں کا تعلق نظریہ ٔضرورت سے عبارت ہے۔اس تعلق میں گہرائی ،گیرائی اور خلوص کا عنصر بہت کم ہی ملتا ہے ۔کہیں اس کی قیمت سی پیک اورپاک چین تعلقات تو نہیں ؟موجودہ حکومت سی پیک کے حوالے سے زیادہ پرجوش نہیں رہی ۔حکومت بنتے ہی مشیر تجارت نے ان منصوبوں کو موخر کرنے کا عندیہ دے کر امریکہ کے لئے ایک شاخ ِزیتون اُچھال دی تھی ۔سی پیک کو اب تک پاکستان اور چین دونوں کے لئے ایک مہنگا شوق بنا نے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ابھی تک کے مراحل نے پاکستانی معیشت کو نظر آنے والا سہارا نہیں دیا مگر اس کا مطلب ہر گز نہیں اس منصوبے کے دور رس اثرات نہیں ۔پاکستان کو معاشی حالات سدھارنے کے لئے امریکہ سے تعاون ضرور طلب کرنا چاہئے مگر اس کا اثر پاک چین تعلقات اور سی پیک پر نہیں پڑنا چاہئے ۔اس ماضی کو مدنظر رکھ کر امریکہ کے ساتھ تعلقات میں آگے بڑھنے میں ہی پاکستان کا بھلا ہے۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …