ہفتہ , 20 اپریل 2024

کیا کشمیر فلسطین بن رہا ہے؟

(تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس)

جب ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی بات کی اور اسے پاکستان کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا، ہم اسی وقت سے واویلا کر رہے تھے کہ اس ثالثی سے کسی خیر کی توقع کرنا عبث ہوگا۔ ماضی میں امریکی رہنما کبھی کبھار ثالثی کے بیانات دیتے رہے ہیں اور جیسے ہی انڈیا کی طرف سے ردعمل آتا فوراً اپنا بیان سفارتی انداز میں واپس لے لیتے۔ اب کی بار ٹرمپ نے نہ صرف یہ کہ بیان واپس نہیں لیا بلکہ اس پر اصرار بھی کیا، جس سے شکوک و شبہات بڑھ گئے۔ کشمیر کی ریاست ہندوستان بھر میں اپنے کلچر کے حوالے سے معروف رہی ہے، یہاں کے کھانوں سے لیکر لباس تک اور نظریاتی حوالے سے اسلام تک کا ایک جداگانہ تشخص ہے۔ کشمیر کے لوگ کشمیر کی طرح خوبصورت ہیں اور اہل کشمیر کی ذہانت کی دنیا معترف ہے۔ پچھلے پچھتر سال سے ہندوستان اہل کشمیر پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ 1989ء کے بعد کی جدوجہد آزادی میں ایک لاکھ کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یہ بات انڈیا کو سمجھ لینی چاہیئے کہ جس قدر ظلم و بربریت اس نے کشمیر میں کیا ہے، اس سے اہل کشمیر اس سے فقط نفرت ہی کرسکتے ہیں۔

ریاست کشمیر کے تحفظ کے لیے آباد اقوام کی مرضی سے ڈوگرا دور میں یہ قانون بنایا گیا تھا کہ یہاں کوئی غیر مقامی زمین نہیں خرید سکتا۔ اس سے کشمیر میں کسی بھی قسم کے ڈیموگرافی چینج کا راستہ بند کر دیا گیا۔ ہندوستان نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 میں اس حق کو تسلیم کیا کہ یہاں غیر مقامی افراد کی آباد کاری نہیں ہوگی۔ اگرچہ اسی آرٹیکل میں کشمیر کے لیے صدر اور وزیراعظم کی بھی بات تھی اور وفاق کا تعلق فقط دفاع، مواصلات اور کرنسی تک محدود بتایا گیا تھا، مگر وہ سب پہلے ہی غصب کیا جا چکا ہے۔ یہ آرٹیکل ہندو نواز سیاسی جماعتوں کے کشمیر بیانیہ کے مطابق انہیں ہندوستان سے جوڑتا تھا، جس میں کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا تھا۔ اب ان کے بیانیہ کے مطابق بھی کوئی ایسی بنیاد باقی نہیں رہی، جس سے کشمیر کا ہندوستان سے کوئی تعلق جوڑا جا سکے۔ بی جے پی نے اسے انتخابی نعرہ بنایا تھا کہ ہم اسے ختم کریں گے، اقتدار میں آتے ہی اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔

اس میں کئی ٹیکینکل مسائل ہیں، جیسے انڈیا کے آئین کے مطابق بھی دوسری بہت سے ریاستوں جیسے ہماچل پردیش وغیرہ میں کوئی غیر مقامی زمین نہیں خرید سکتا، اسی طرح انڈیا کے آئین کے مطابق جب کسی ریاست میں کوئی تبدیلی کرنی ہے تو اس کے لیے ریاست کی اسمبلی سے منظوری ضروری ہے، تعصب محض کی بنیاد پر کشمیر کو اس سے باہر رکھا گیا کہ وہاں صدر سب کچھ کرسکتا ہے۔ کشمیر اب ہندوستان کی مقبوضہ کالونی بنا لیا گیا ہے، جہاں صرف ریاستی سٹیٹس ہی ختم نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک فیڈرل علاقہ بنا دیا گیا ہے، جس کے تمام اختیارات مرکز کے پاس ہوں گے۔ لداخ ریجن میں تو کسی اسمبلی سے ہی انکار کر دیا گیا ہے، کشمیر ویلی کو ایک ایسی اسمبلی دی جائے گی، جس کے پاس بلدیہ سے بھی کم اختیارات ہوں گے، جو صفائی ستھرائی کے کام دیکھے گی۔

مشرف دور سے یہ خبریں گرم تھیں کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تیاری ہو رہی ہے، جموں انڈیا لے گا، جی بی پاکستان اور ویلی کو آزاد حیثیت دی جائے گی۔ عمران خان صاحب سے منسوب اسی طرح کا پرانا ایک بیان بھی سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔ کچھ لوگوں نے لکھا کہ دونوں ممالک اب اس قضیہ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، سبحان اللہ یہ کیسی جان چھڑانے کی کوشش ہے، جس میں ایک لاکھ لوگوں کی قربانیوں کا کوئی لحاظ نہیں ہے؟ جہاں انڈیا کا پورے کا پورا بیانیہ قبول کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام ایسے کسی بھی بیانیہ کو مسترد کرتے ہیں اور کسی بھی صورت میں اپنے کشمیری بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ قابض ایک ہزار سال تک قبضہ کیے رکھے، وہ قابض ہوتا ہے مالک نہیں بن جاتا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیر کے ساتھ ہماری جذبانی وابستیگی ہے، کوئی بھی ایسی پالیسی جس سے کشمیر پر ہمارا موقف کمزور ہوتا ہو، کسی طور پر قبول نہیں ہے۔ عمران خان صاحب کو ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کی تفصیلات کو سامنے لانا چاہیئے کہ اس کے پیچھے کیا طلب کیا گیا ہے۔؟

اتنے بڑے واقعہ پر مسلم امہ اور ہمارے دوست ممالک کی طرف سے کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا، یہ ایک سفارتی ناکامی ہے، 1965ء کی جنگ میں پوری امت مسلمہ سوائے ملائیشیا کے ہمارے ساتھ کھڑی تھی اور آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ عرب امارات کے دلی میں سفیر کا بیان انگلش میڈیا پر سامنے آیا ہے کہ انڈیا نے اس آرٹیکل کو ختم کرکے بہت اچھا کیا، اس سے کشمیر میں بہت ترقی ہوگی۔ یعنی ترقی میں یہ ایک رکاوٹ تھی جسے دور کر لیا گیا، اس سفیر محترم کو سمجھنا چاہیئے تھا کہ جن لوگوں کو یہ فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، وہ اتنے پاگل ہیں کہ اپنے اس فائدہ کے خلاف جان دینے کے لیے تیار ہیں اور انڈیا کی حکومت نے اہل کشمیر کو یہ فائدہ پہنچانے کے لیے وہاں کرفیو نافذ کر رکھا ہے، تعجب ہے۔ آج ذوالفقار علی بھٹو جیسی سفارتکاری اور خلوص کی ضرورت ہے، جس نے کہا تھا میں انسان ہوں، غلطی کرسکتا ہوں، مگر کشمیر کے معاملے پر میں سوتے میں بھی غلطی نہیں کرسکتا۔ ایک بات بڑی واضح ہے کہ کمزور کی کوئی عزت نہیں ہوتی، جب ہم ہر ملک مالی امداد کے تقاضوں کے ساتھ جائیں گے تو ہماری کیا عزت ہوگی؟ اس لیے ضروری ہے کہ ہم مالی استحکام بھی حاصل کریں۔

ممتاز ماہر قانون اور شریعہ اکیڈمی اسلامک یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق صاحب نے درست کہا کہ یہ تو شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ باہمی موجود مسائل کو نہیں چھیٹرا جائے گا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیئے، تاکہ انڈیا کو اس محاذ پر رگڑا لگایا جا سکتے۔ ویسے ہر شر میں ایک خیر ہوتی ہے، انڈیا نے دوبارہ اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ بنا دیا ہے، اب یہ ہماری قابلیت پر ہے کہ ہم اس سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا یہ اسرائیلی وزیراعظم مودی کو سکھا کر گیا ہے کہ کشمیریوں کو اسی طرح آزاد کشمیر کی طرف دھکیلا جائے گا، جیسے فلسطینیوں کو اردن دھکیلا گیا تھا۔ اس قانون کے تبدیل ہونے سے بے تحاشہ غیر کشمیری کشمیر آئیں گے تو اس سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوگا، جس کی طرف خواجہ آصف نے اشارہ کیا ہے کہ کشمیری دربدر ہو جائیں گے۔ آج وقت ہے کہ ہم درست فیصلے لیں۔ ایک کر دار اہل کشمیر کو ادا کرنا ہے، جیسے ہی کرفیو ہٹے گا، اہل کشمیر وہ ضرور ادا کریں گے۔ دوسرا کردار ریاست پاکستان کا ہے، اندرون ملک اور بیرون ملک وہ موثر انداز میں ادا ہونا چاہیئے، پاک فوج کا بیان اسی بات کا عکاس ہے۔ ہمیں جاگنا ہوگا، اگر ہم بھی عرب حکمرانوں کی طرح سوتے رہے تو کشمیر فلسطین بن جائے گا اور ہم ان شاء اللہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …