جمعہ , 19 اپریل 2024

حج ابراہیمی، وحدت امت اسلامی کا عظیم مظہر

(تحریر: محمد علی جوہری)

حج بیت الله الحرام ارکان اسلام میں ایک اہم ترین رکن اور فروعات دین کی پانچویں فرع ہے۔ بیت اللہ کی زیارت اور فریضہ حج کی ادئیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا و آرزو ہے۔ سفر حج ہر مسلمان کی زندگی کا سب سے اہم سفر ہے، جس میں اسے ایک عظیم عبادت ادا کرنے کا موقع ملتا ہے، جسکے بعد وہ ایسے ہی گناہوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے، جیسے وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ حج امت مسلمہ کی اجتماعی عبادات کا مرقع اور اسکا ترجمان ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع و عریض میدان ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات و معاملات کا تجزیہ کرنے کے لئے سالانہ بین الاقوامی پلیٹ فارم مہیا کیا ہے تاکہ وہ جہاں حقوق الٰہی کے معاملہ میں اپنے وظیفے کا احساس کرے۔

وہی حقوق العباد کے سلسلے میں بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے دنیا کے مختلف گوشوں میں مشکلات سے دوچار مسلمانوں کی حالات کی درستگی کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں۔ حج وحدت اسلامی کا ایک عظیم مظہر ہے جس میں ذات پات، رنگ و نسل، امیر و غریب، قومیت و وطنیت کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور ایک ہی لباس میں ملبوس فرزندان توحید خدائے وحدہ لاشریک کی وحدانیت اور یکتائی کے ترانے کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ دراصل دنیا کے بت کدوں میں یہ اللہ کا پہلا گھر ابراہیم بت شکن کے ذریعے اسی لئے تعمیر ہوا تاکہ لوگ شرکیہ عقائد و نظریات سے دور رہ کر ہدایت اور بصیرت کے ساتھ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، جو اپنی ذات، صفات اور کمالات میں احد اور یکتا ہے۔ یوں تو حج کی یہ عظیم الشان عبادت اپنے اندر بہت سے پہلو رکھتی ہے، تاہم اسکا سیاسی پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہے، چنانچہ سیاسی پہلو کے اعتبار سے یہ خالص ترین اور عمیق ترین اجتماعی عبادت ہونے کے ساتھ اسلامی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہترین وسیلہ بھی ہے۔

حج انسانی بھائی چارے کا ایک بےنظیر مظاہرہ ہے، جس سے امت مسلمہ کو یہ سبق ملتا ہے کہ میدان عرفات و منٰی و مزدلفہ کی طرح اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اس طرح اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کرے، جس سے امت مسلمہ کے ایک جسم اور ایک جان ہونے کا احساس نمایاں ہو جائے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانان عالم ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو کر دنیا کے گوشہ و کنار میں موجود امت مسلمہ کی مشکلات اور مصائب کے حل کیلئے لبیک اللہم لبیک کے الٰہی ترانے کو عملی جامہ پہنانے میں پر عزم ہو جائے۔ چنانچہ حج کا یہ پہلو اگر دوران حج عملی شکل و صورت اختیار کر جائے تو نہ صرف کشمیری اور فلسطینی مسلمان بہن بھائیوں کو اسرائیل اور بھارت جیسے خونخوار بھیڑیوں کے چنگل سے نجات دلائی جا سکتی ہے، بلکہ اسکے ساتھ دنیا کی کوئی طاقت کبھی کسی مسلمان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کر سکتی۔

آج امت اسلامی اپنے آپ سے حج ابراہیمی کے موقع پر خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پورے اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا عہد کرتے ہوئے حج کے سیاسی پہلو عملی شکل دینے کیلئے مصمم ہو جائے، تو پوری دنیا میں اسلام کے غلبے کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی، کیونکہ حج صرف اسلام کا ایک رُکن ہی نہیں، بلکہ عشق و سرمستی کی وہ داستان ہے جو حج کے دوران مختلف ممالک سے آنے والے لوگوں سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر سال دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشکلات کا جائزہ لینے کے ساتھ انکی مشکلات کو رفع دفع کرنے کیلئے لائحہ عمل طے کریں، کیونکہ مناسک حج کی صورت میں یہ عظیم الشان اجتماعی عبادت دنیا بھر کے مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی کرتی ہے، جس میں مرد و عورت، طاقتور اور ضعیف، کالا اور گورا سبھی حاضر ہوکر اسلامی شان و شوکت میں اضافہ کرسکتے ہیں، اور وحدت کے نعروں سے اسلامی دشمنوں کو خوف زدہ کرسکتے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …