جمعہ , 19 اپریل 2024

بھارتی اقدام’اقوام متحدہ کیلئے کھلا چیلنج

(افشاں ملک)

بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق قانون کے خاتمے کے بعد اب بھارت بھر کے رہائشی مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید کر مقبوضہ وادی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر سکیں گے۔ کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ اب بڑی تعداد میں ہندوستانی کشمیر کا رخ کریں گے اور یہاں رہائش اختیار کریں گے جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل ہو جائے گا۔بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم مودی کی حکومت کے تازہ اقدام نے خطے کی حیثیت کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ کشمیر اب ایک متنازع علاقہ نہیں بلکہ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بھارتی ریاست کا ایک باقاعدہ حصہ قرار دے دیا گیا ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ آج بھی اقوام متحدہ کے تصفیہ طلب امور سے متعلق ایجنڈے کا حصہ، ستر برس پرانا اور قدیم ترین حل طلب تنازع ہے۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان اس مسئلے میں براہِ راست فریق اور کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں عالمی سطح پر ان کا وکیل ہے۔ مگر اب انتہائی نازک صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو یقینا اقوام متحدہ کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے، جس نے اس مسئلے کو رائے شماری کے ذریعے حل کروانے اور کشمیر کے عوام کو حقِ خود اختیاری دلوانے کی ذمہ داری قبول کی تھی مگر 70 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ ادارہ اپنی یہ ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے نہتے اور معصوم کشمیری عوام پر ہر طرح کے مظالم کے باوجود اس ادارے نے سوائے زبانی جمع خرچ کے کسی قسم کا معمولی اقدام تک نہیں کیا۔ عالمی قوانین کی کھلے بندوں دھجیاں بکھیرتے ہوئے کشمیر کے متنازع علاقے کی حیثیت میں اساسی نوعیت کی تبدیلیاں کرنے والے حالیہ اقدام پر بھی اقوام متحدہ کا عملی کردار روایتی مذمت سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے، ایک بار پھر زبانی جمع خرچ اور اظہارِ تشویش کے ملبے تلے پورے معاملے کو دباکر وقت گزاری کی کوشش کی جارہی ہے۔

بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے اور پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دینے کے اس اقدام کے بعد بھی کسی ٹھوس، مؤثر اور فیصلہ کن اقدام کے بجائے عالمی امن کے ٹھیکیدار اقوام متحدہ نام کے اس ادارے نے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے پر محض زبانی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نیویارک میں اپنے ہیڈ کوارٹرز میں ذرائع ابلاغ کو اس بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے ادارے کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ عالمی ادارے کو کشیدگی میں اضافے پر تشویش ہے۔

اقوام متحدہ کی طرف سے کس خوبصورتی سے سارے معاملے پر تشویش کی مٹی ڈال کر جان چھڑالی گئی ہے، کسی ظالم کے لیے سزا، نہ کسی مظلوم کے لیے دادرسی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں کے نفاذ کا علم ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود کشمیری عوام کو ان ظالمانہ پابندیوں سے نجات دلانے کے لیے کوئی عملی اقدام تو دور کی بات ہے زبانی مذمت تک کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تلقین کے ساتھ سیکریٹری جنرل کے کردار ادا کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کی رضامندی کی شرط، کیا خوب۔کون نہیں جانتا کہ پاکستان ہمیشہ اس قسم کی پیشکش پر آمادہ و تیار رہا ہے مگر بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ مذاکرات یا ثالثی قبول کرنے سے انکار کیا ہے، اور اس کے ڈھٹائی پر مبنی منفی طرزعمل پر آج تک کسی نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ لائن آف کنٹرول پر فوجی سرگرمیوں میں اضافے کے مشاہدے کے باوجود اس کے ذمہ دار کے بارے میں حرف مذمت زبان پر لانے کے بجائے جارح و ظالم، اور معصوم و مظلوم سب کو ایک سطح پر رکھ کر صبر و تحمل کی تلقین کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے کیے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی بے حسی کے سبب دنیا میں امن ناپید ہے اور اسرائیل کو فلسطین، بھارت کو کشمیر اور برما کو روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔

مسلمانوں کا سب سے بڑا قصور یہی ہے کہ وہ کم ہمتی اور باہم افتراق و انتشار کا شکار اور علامہ اقبال کے بقول ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات” کی کیفیت سے دوچار ہیں، ورنہ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دنیا کے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا میں جب عیسائی اکثریت کے صوبے تیمور میں عیسائی آبادی نے اپنی مذہبی شناخت ہی کی بنا پر الگ مملکت کا مطالبہ کیا تو وہاں کسی تاخیر اور لیت و لعل کے بغیر اسی اقوام متحدہ نے فوری ریفرنڈم کرواکر دنیا میں ایک نئی عیسائی مملکت ”مشرقی تیمور” کو وجود بخش دیا۔پھر سوڈان کو بھی اس بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کرکے جنوبی سوڈان کے نام سے ایک نیا عیسائی ملک بنوا دیا گیا۔ عالمی برادری کا مسلمانوں کے بارے میں متضاد رویہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان ممالک کے مسائل کبھی بھی عالمی طاقتوں کی ترجیح اول نہیں رہے ہیں ،مسلمان ممالک کو ایک علیحدہ اتحاد بنانے کی ضرورت ہے جو او آئی سی سے زیادہ مؤثر ہو اورجس کا مقصدمسلمان ممالک کے مسائل کا حل ہو۔کاش!مسلمان اپنے گروہی اختلافات سے بالاترہو کر سوچیں اوراقوام متحدہ سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے مسلمان ممالک پر مشتمل بلاک تشکیل دیں۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …