جمعرات , 25 اپریل 2024

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی پوری آبادی محصور، ٹیلی رابطے مفلوج، راستے مسدود

(ریاض مسرور)

2004 میں کشمیر کے حالات نسبتاً پرسکون تھے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں آج جیسی تلخی نہیں تھی، اور مسلح تشدد کے واقعات کی تعداد بھی بہت کم تھی۔حریت کانفرنس کے بعض لیڈر حکومت ہند کے ساتھ مذاکرات کے ایک اور دور کی تیاری میں مصروف تھے۔ لیکن اُسی سال جب یورپی یونین کا ایک پارلیمانی وفد کشمیر آیا تو وفد کے اراکین نے کشمیرکے طول و عرض میں موجود فوجی، نیم فوجی اور پولیس تنصیبات اور اہلکاروں کی تعداد کو دیکھ کر کہا تھا کہ ’کشمیر ایک خوبصورت قید خانہ‘ ہے۔

گزشتہ 15 برس کے دوران کشمیر میں کم از کم تین مرتبہ ہمہ گیر عوامی تحریک برپا ہوئی جسے دبانے کے لیے وسیع پیمانے کا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے، ہزاروں دیگر زخمی ہو گئے، سینکڑوں جیلوں میں ہیں۔ان تحریکوں کے دوران کئی کئی مرتبہ کرفیو نافذ رہتا تھا، موبائل انٹرنیٹ معطل رہتا تھا، لیکن سڑکیں مکمل طور پر مسدود اور رابطے اس درجہ مفلوج نہیں تھے۔ گذشتہ پانچ دن سے کشمیر کے لوگ ایک دوسرے کا حال چال پوچھنے سے قاصر ہیں۔

کشمیر کے واحد زنانہ ہسپتال، لل دید میں مریضوں کے تیمارداروں نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں بھی ہسپتال میں نظر بند کیا گیا ہے۔شوپیان کے بلال احمد نے بتایا: ’میں اپنی بہن کو لے کر ہسپتال کیسے پہنچا وہ میرا خدا ہی جانتا ہے، لیکن اب جب کہ خدا کے فضل سے اس کی بیٹی ہوئی ہے اور ہم یہ خوش خبری گھر والوں کو نہیں دے سکے ہیں۔‘ یہی حال اُن لاکھوں والدین کا ہے جن کے بچے یا اقربا ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں کاروبار یا تعلیم کے سلسلے میں مقیم ہیں۔

لال چوک کے ایک دکاندار عبدالمجید کہتے ہیں: ’حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ دس لاکھ لوگ (انڈیا سے) باہر ہیں۔ سرکاری دفتروں میں چند فون لائنز سے یہ مسئلہ حل ہو گا کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ کم از کم مواصلاتی رابطوں کا کوئی ایک ذریعہ ہی بحال کرے۔‘

واضح رہے 30 سال میں پہلی مرتبہ کشمیر میں لینڈ لائن، وائرلیس فونز اور ہر طرح کی انٹرنیٹ سہولت معطل ہے۔ حالانکہ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن سڑکوں پر کرفیو سے بھی بدترین حالات ہیں۔

اگست اور ستمبر کشمیر میں شادیوں، حج سے واپسی اور امتحانات کا سیزن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ میوہ باغات میں دواپاشی کا وقت ہے جبکہ چند ہفتوں میں شالی کی فصل کاٹنے کا وقت ہے۔عبدالمجید کہتے ہیں: ’جس طرح کی بندشیں ہیں، ہم اس وقت صرف یہ سوچتے ہیں کہ کیا ہم حاجیوں کا استقبال کرنے، شادیوں کی تقریب میں شرکت کرنے، بچوں کو امتحانات کے لیے بھیجنے یا فصل کاٹنے کے لیے زندہ رہیں گے کیا۔‘

واضح رہے حکومت کے احکامات پر بیس ہزار یاتری اور سیاح وادی چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔درین اثنا گورنر ایس پی ملک نے اعلان کیا ہے کہ لوگوں کو عید منانے میں تکلیف نہیں ہوگی، کیونکہ "مختلف بستیوں میں غذائی اجناس کی موبائل وین بھیجی جائیں گی، سبزیاں اور گوشت کے لیے منڈیاں قائم ہوں گی جہاں لوگوں کی رسائی ممکن ہوگی۔ ‘

30 سالہ تاریخ میں سخت ترین کرفیو اور مواصلاتی بلاکیڈ کی وجہ سے افواہوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے، تاہم پولیس حکام نے بتایا کہ گزشتہ پانچ روز کے دوران پرتشدد مظاہروں کی سو سے کم وارداتیں ہوئیں جن میں 20 سے زیادہ افراد چھرے اور آنسو گیس کے گولے لگنے سے زخمی ہو گئے۔سرینگر کے قمرواری علاقے میں پولیس نے مشتعل ہجوم کا تعاقب کیا تو کچھ نوجوان دریا میں کود پڑے جس کے باعث ایک نوجوان غرقاب ہو گیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 5 اگست کو انڈین پارلیمان میں وزیرداخلہ امت شاہ نے انڈین آئین میں کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات کو ختم کرنے اور جموں کشمیر ریاست کو جموں کشمیر اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کا بل پیش کیا جسے دونوں ایوانوں میں منظور کیا گیا۔

اس قانون کے مطابق اب لداخ بغیر اسمبلی والا علیحدہ مرکز کے زیرِ انتظام خطہ ہے جبکہ جموں کشمیر بھی مرکز کے زیرِ انتظام خطہ ہو گا لیکن یہاں قانون سازاسمبلی ہو گی۔عام لوگوں کو خدشہ ہے کہ انڈین شہریوں پر کشمیر میں جائیداد خریدنے یا نوکری حاصل کرنے پر پابندی کے خاتمے سے کشمیریوں کی شناخت ختم ہو جائے گی۔

تاہم وزیراعظم نریندر مودی نے جمعرات کو قوم کے نام خطاب میں کہا کہ آئین کی دفعہ 370 جموں کشمیر اور لداخ کی ترقی میں بڑی رکاوٹ تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب ’نوجوان خود اپنی تقدیر کے مالک ہوں گے، اور تینوں خطے ترقی کی نئی منازل طے کریں گے۔ ‘بشکریہ بی بی سی

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …