ہفتہ , 20 اپریل 2024

ناروے میں پر حملہ: مسلم نفرت اور نسل پرستی کا شاخسانہ

(سید مجاہد علی) 

عید الاضحی سے ایک روز پہلے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے قرب میں واقع علاقے بیرم کی مسجد النور اسلامک سنٹر پرایک سفید فام نوجوان کی فائیرنگ کے واقعہ سے ایک بار پھر یہ سوال وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور پریشانی کے طور سامنے آیا ہے کہ نسل پرستی اور مذہب دشمنی دنیا بھر میں لوگوں میں تفریق پیدا کررہی ہے۔

قوم پرستی کے نام پر پیدا کئے گئے ہیجان اور پروپیگنڈا کی وجہ سے متعدد نوجوان گمراہ ہوکر خود فیصلہ کرنے کی لگن میں نفرت کو عام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ تاہم اس کی ساری ذمہ داری صرف نوجوانوں کی گمراہی، انتہا پسندانہ نظریات کی ترویج یا معاشی مشکلات پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ دنیا بھر میں امریکہ سے لے کر برطانیہ تک اور متعدد مغربی ممالک میں دائیں بازو کے نسل پرست عناصر اور رجحانات کو تقویت ملی ہے۔ اگرچہ مین اسٹریم سیاست دان کوئی سانحہ ہونے پر ان رویوں کو مسترد کرتے ہیں لیکن گزشتہ چند عشروں کے دوران سیاسی لیڈر مختلف سماجی و معاشی معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ہاں آباد اقلیتوں کے بارے میں منفی رجحانات کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے ہیں۔

اب یوں لگتا ہے کہ معاملات مین اسٹریم پارٹیوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہونے سے پہلے ری پبلیکن پارٹی میں ’آؤٹ سائیڈر‘ سمجھے جاتے تھے۔ اب امریکہ کی یہ پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کے بغیر اپنا سیاسی ایجنڈا متعین کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔ پارٹی کے نمائیندے انتہائی ڈھٹائی سے ٹرمپ کے سماج دشمن اور اقلیتوں کے خلاف بیانات اور ٹوئٹس کے لئے دلائل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ الپاسو میں ہونے والے حالیہ حملے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام صدارتی امیدواروں نے صدر ٹرمپ کو ملک میں پھیلنے والی نفرت اور نسل پرستی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

برطانیہ میں بریکسٹ کے سوال پر تھریسا مے کے استعفیٰ کے بعد وہاں کی ٹوری پارٹی نے بورس جانسن کو ان کا جانشین منتخب کیا ہے جو اب برطانیہ کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ جانسن اپنے بیانات اور تبصروں میں تارکین وطن اور دوسری ثقافتوں کے بارے میں ہتک آمیز اور اشتعال انگیز طرز تکلم اختیار کرتے رہے ہیں۔ انہیں بجا طور سے برطانیہ کا ’ ڈونلڈ ٹرمپ‘ کہا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ نے نئے برطانوی وزیر اعظم کے انتخاب سے پہلے اپنے مخصوص غیر روائیتی انداز میں بورس جانسن کی حمایت بھی کی تھی۔ جن یورپی ملکوں میں انتہاپسندانہ نظریات کا پرچار کرنے والے لیڈر براہ راست اقتدار میں نہیں ہیں وہاں بھی دائیں بازو کی ایسی جماعتیں 20 سے 30 فیصد تک ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں ، جو اقلیتوں کے خلاف نفرت اور انتہائی اقدامات پر مبنی پالیسیاں اختیار کرنے کو اپنے منشور کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔

سال رواں کے دوران بھارت میں بی جے پی نے ایک بار پھر انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی ہے ۔ انتہائی نظریات کا پرچار کرنے والے نریندر مودی دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں۔ اس بار انہوں نے اس قدر بھاری انتخابی کامیابی حاصل کی ہے کہ اب بھارت کی مسلمان اکثریت والی واحد ریاست مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اس علاقے کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس انتہاپسندانہ ہندو فسطائی ایجنڈے کے بارے میں متنبہ کررہے ہیں لیکن ایک طرف بھارت میں اس فیصلہ کی وسیع بنیادوں پر تائد کی جارہی ہے تو دوسری طرف پوری دنیا نے کشمیر میں بھارت کے انتہا پسندانہ اقدامات پر پراسرار خاموشی اختیار کی ہے۔ عرب اسلامی ممالک بھی مودی کے ہندو ایجنڈے پر احتجاج کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ متحدہ عرب امارات نے تو نریندر مودی حکومت کے اس فیصلہ کو خوش آئیند قرار دیا ہے۔ اس بار خطبہ حج میں امام کعبہ نے بھی فلسطین یا کشمیر کے مسلمانوں کو اپنی دعا میں یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ سعودی عرب میں شاہی خاندان اور مذہبی قیادت کے درمیان تال میل کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ یہ ارادی اور سوچا سمجھا پیغام تھا۔

اس پس منظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور مقبولیت کے بطن سے پیدا ہونے والا انتہا پسندانہ سیاسی مزاج فروغ پارہا ہے۔ ٹرمپ، بورس جانسن اور نریندر مودی جیسے لیڈروں کی موجودگی میں مذہبی احترام اور انسانی اقدار کا ایجنڈا پس پشت ڈالا جارہا ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ دنیا بھر میں نہ تو انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی مذہبی منافرت سے امریکی قیادت کو کوئی پریشانی لاحق ہے۔ البتہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے جابر حکمران کم جونگ ان کو بھی ’راکٹ مین‘ سے عزیز دوست اور عظیم لیڈر کا درجہ دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت کا فروغ آسان ہو چکا ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن البتہ استثنیات میں شامل ہیں۔ جیسنڈا آرڈرن نے اس سال مارچ میں اپنے ملک کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر ایک سفید فام شخص کے حملوں میں 51 مسلمانوں کی شہادت کے بعد مثالی قیادت کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک طرف فوری قانون سازی کا آغاز کیا تو دوسری طرف ذاتی طور پر مسلمانوں کے ساتھ مل کر انہیں نیوزی لینڈ کے مساوی شہری قرار دیا۔

مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی کہانی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران القاعدہ اور داعش جیسے مسلمان دہشت گرد گروہوں کے حملوں اور نفرت انگیز طریقہ کار کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں نسل پرستی اور دیگر ثقافتوں کے بارے میں تعصبات کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن مسلمان گروہوں کے حملوں ، اور خاص طور سے شام و عراق پر داعش کے قبضہ کے دوران غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے انسانیت سوز سلوک کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے مسلمان عمومی طور پر اور خاص طور سے مغربی ممالک میں آباد مسلمان نمائیندے دہشت گردی سے مکمل اور غیر مشروط لاتعلقی کا اعلان کرنے میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔ ان اقلیتی برادریوں میں ایسے لوگ بھی موجود رہے ہیں جو کسی نہ کسی سطح پر اور کسی نہ کسی طریقہ سے مسلمان گروہوں کی دہشت گردی کو مغربی ممالک کی غیر منصفانہ پالیسیوں کا رد عمل قرار دے کر کسی حد عذر تراشنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس رویہ کی وجہ سے اسلام سے خوف اور مسلمانوں سے نفرت میں اضافہ ہؤا۔

ناروے جیسے چھوٹے اور خوشحال ملک میں البتہ جب مذہبی نفرت کا ایک ایسا واقعہ پیش آئے جس میں ایک شخص نے ایک مسجد میں داخل ہوکر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے تو یہاں کی قیادت اور سماج کے لئے اس نفرت اور مذہبی آزادی کی اس توہین کو برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ گزشتہ روز شام 4 بجے کے قریب ایک 21 سالہ نوجوان اوسلو کی نواحی بیرم کمیون کی النورمسجد میں متعدد ہتھیاروں کے ساتھ فائیرنگ کرتا ہؤا داخل ہؤا۔ خوش قسمتی سے اس وقت مسجد میں چند ہی لوگ تھے۔ ان میں سے ایک 65 سالہ محمد رفیق نے حملہ آور کو دیکھتے ہی اسے دبوچ لیا اور باقی لوگوں کے ساتھ مل کر اسے زیر کرلیا۔ اس ہاتھا پائی میں حملہ آور کے علاوہ محمد رفیق بھی معمولی زخمی ہوگئے لیکن اس سانحہ میں زیادہ جانی نقصان نہیں ہؤا۔

پولیس نے اب حملہ آور کو حراست میں لے لیا ہے اور اس کے خلاف دہشت گرد حملہ کا الزام عائد کرنے کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ حملہ آور کے گھر کی تلاشی کے دوران پولیس کو ایک 17 سالہ لڑکی کی لاش بھی ملی ہے جو ملزم کی سوتیلی بہن بتائی جاتی ہے۔ یہ لڑکی حملہ آور کے باپ کی دوسری بیوی نے چین سے گود لی تھی۔ شبہ کیا جا رہا ہے کہ مسجد پر حملہ کرنے والے نوجوان نے ہی اپنی سوتیلی بہن کو ہلاک کیا ہے۔اس لئے اس کے خلاف فی الحال قتل اور اقدام قتل کی فردجرم عائد کی گئی ہے۔ تاہم پولیس صورت حال کا مسلسل جائزہ لے رہی ہے۔

ناروے کی سیاسی قیادت اور شہریوں کی اکثریت نے اس گھناؤنے حملہ کی شدید مذمت کی ہے۔ النور مسجد کو پولیس تحقیقات کے لئے بند کردیا گیا تھا لیکن بیرم کمیون نے فوری طور پر اس مسجد کے نمازیوں کی نماز عید کے لئے علاقے کےسے سب سے بڑے ہوٹل تھون کا ہال فراہم کیا۔ اس اجتماع میں ناروے کی وزیر اعظم ارنا سولبرگ بھی اظہار یک جہتی کے لئے پہنچیں۔ انہوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی سب عبادت گاہوں کی حفاظت اور احترام ہمارے معاشرے کی بنیادی اقدار کا حصہ ہے۔ اسے پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی‘۔ اوسلو کی شہری حکومت کے وزیر اعلیٰ ریمنڈ یوہانسن نے شہر کی جامع مسجد میں عید کی نماز پڑھنے کے لئے آنے والے مسلمانوں سے خطاب کیا اور واضح کیا کہ ’ناروے میں انفرادی عقیدہ کے احترام اور عبادت گاہوں کے تقدس پر مفاہمت نہیں ہو سکتی اور سیاست دان پوری قوت سے ان عناصر کے خلاف کام کریں گے‘۔

اتوار کی چھٹی کے باوجود اوسلو کی مساجد میں عید کی نماز کے موقع پر درجنوں مقامی افراد مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے لئے پہنچے اور بینر اٹھا کر اس وقت تک مساجد کے باہر کھڑے رہے جب تک لوگ نماز عید ادا کرکے واپس گھروں کو نہیں چلے گئے۔ ناروے کی مسلمان آبادی کے ساتھ سیاسی قیادت اور مقامی آبادی کے اس اظہار ہمدردی و یک جہتی سے بین المذہبی احترام کی ایک نئی فضا پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلنے والی نفرت اور تعصب کی فضا میں اہل ناروے کا یہ رویہ اندھیرے میں شمع جلانے کے مترادف ہے۔بشکریہ ہم سب نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …