ہفتہ , 20 اپریل 2024

ایران اور حزب اللہ سے اسرائیل کی جنگ ہوگی تو کیا ہوگا؟ اسرائیلی اخبار کا انکشاف

اسرائیلی اخبار معاریو میں اسرائیلی تجزیہ نگار "آموس گلبو” کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے جنگ کی صورتحال میں اسرائیل کی دفاعی طاقت کا جائزہ لیا ہے۔ایران اور امریکا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران میرے خیال میں اسرائیل کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس کشیدگی سے دور ہی رہے اور ایران کے خلاف لڑنے والے جنگجو کی طرح میدان میں نہ کودے، یہیں نہیں بلکہ میرے خیال میں تو اسرائیل کو ایرانیوں کو مارنے کے بارے میں شیخی بگھارنے سے بچنا چاہئے جیسا کہ تیساہی ہغبی نے کہا ہے ۔

ایران کے خلاف جنگ کرنے سے پہلے اس سوال کا جواب ضروری ہے کہ حزب اللہ اور حماس کا کیا ہوگا جو ایران کے اتحادی ہیں؟ میں خاص طور پر حزب اللہ اور گزشتہ 13 تاریخ کو حسن نصر اللہ کے بیان میں کہے گئے دو موضوعات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں ۔

پہلا موضوع، فائر کی حزب اللہ کی طاقت ہے جیسے میزائلیں، راکٹ لانچر اور ڈرون طیارے، یہ طاقت جیسا کہ حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسرائیل کے دل کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے جیسے بن گورین ہوائی اڈے کو، ڈیمونا ایٹمی تنصیبات کو، خضیرہ کے بجلی گھر کو، تل ابیب میں وزارت دفاع کو اور اسی طرح کے متعدد ٹھکانوں اور مراکز کو حزب اللہ بڑی آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ ہم کھوکھلی دھمکی اور بے بنیاد بیان بازی کی بات نہیں کر رہے ہیں، حسن نصر اللہ کی ان دھمکیوں کی بنیاد مضبوط ہے اور حزب اللہ، اسرائیل میں تباہی پھیلانے کی طاقت رکھتا ہے۔

دوسرا موضوع، موضوع اور نیت کا ہے ۔ ان دھمکیوں کے باوجود حسن نصر اللہ یہ نہیں کہتے کہ اگر امریکا اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو وہ یقینی طور پر اسرائیل کے خلاف فوجی کاروائی کر دیں گے۔ بلکہ وہ اپنی تباہ کن طاقت کا مظاہرہ کرنے پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ اس طرح سے اس سوال کا جواب نہیں مل پاتا کہ کیا وہ اسرائیل کے خلاف کچھ کریں گے؟ ان کی کاروائی کیسی ہوگی؟ کیا وہ اسرائیل کے خلاف اپنی پوری طاقت اور وسائل کا استعمال کریں گے یا دھیرے دھیرے طاقت میں اضافہ کریں گے؟

یہ ابہام در حقیقت ایران کی جانب سے ہے ۔ یہ روش ایران کے سبھی اتحادیوں میں نظر آتی ہے، چاہے وہ لبنان میں حزب اللہ ہو، غزہ میں حماس اور جہاد اسلامی ہو یا پھر یمن اور بحیرہ احمر میں الحوثی ہوں۔ ایران نے حزب اللہ کو طاقتور بنایا ہے اور اس طاقت سے فائدہ بھی وہی اٹھائے گا۔ تو کیا ایران اپنی طاقت کے اس کارڈ کا استعمال کرے گا؟ اگر ہاں تو کب؟

اب چلتے ہیں اسرائیل کی جانب… جنگ کی صورتحال میں جو کہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کے برخلاف ہے، حزب اللہ اسرائیل کے بے حد اہم ٹھکانوں اور شہریوں کے خلاف اپنی تباہ کن طاقت کا یقینی استعمال کرے گا۔ اب اگر ایسا ہوا تو حزب اللہ کے خطرناک اور تباہی پھیلانے والے میزائلوں سے بچنے کا اسرائیل کے پاس کیا راستہ ہوگا؟

اس سوال کے جواب میں اسرائیلی رہنما کہتے ہیں کہ ہم لبنان کو عہد حجری میں پہنچا دیں گے لیکن یہ بس کہنے کے لئے ایک جواب ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا اینٹی میزائل سسٹم، شہریوں کی حفاظت کر پائے گا؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ماہرین کی ایک بڑی تعداد برسوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ حفاظت نہیں کر پائے گا۔ اس ناکامی کے بہت سے اسباب ہیں جن میں ایک سبب اقتصادی مسائل ہے ۔ ہمارے پاس اینٹی میزائل سسٹم کی 1.300 میزائلیں، حزب اللہ کی جانب سے ہم پر ایک ہی دن برسائی جانے والی تین ہزار میزائلوں میں سے کچھ کو ہی تباہ کر پائیں گی اور ان بھی ایک دن کا خرچہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہوگا تو اگر جنگ دس دن تک جاری رہی تو کیا ہوگا؟ اور اگر تیس دنوں تک جاری رہی تو؟ کیا یہ صحیح ہے؟ یہ سوال ہے، اس کے جواب کا انتظار ہے۔بشکریہ سحر نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …