منگل , 23 اپریل 2024

یمن ۔ آلِ سعود کو سونگھنے والا سانپ

(سیدہ سائرہ بانو)

2015 کی بات ہے جب آلِ سعود نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر ہمسایہ مسلمان ملک یمن پر لشکر کشی کی۔ وجہ یہ تھی کہ جب یمن کی بدعنوان حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے حوثی قبائل کھڑے ہوئے تو جائے پناہ کے لئے یمن کا چوہا حکمران سعودی بل میں جاگھسا۔ حکومت کی تبدیلی یمن کا سوفیصد اندرونی سیاسی معاملہ تھا لیکن آلِ سعود نے اسے حوثی بغاوت کا نام دے کر یمن پر جنگ مسلط کر دی۔ حوثیوں کی سرکوبی کے لئے آلِ سعود اور اماراتیوں نے یمن پر بری بحری اور فضائی حملے کئے یا یوں کہیے کہ حوثی بغاوت کو کچلنا تو صرف ایک بہانہ تھا, انہوں نے یمنی عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔

یمن کی شہری و دیہاتی آبادی, سکول, مسجد, ہسپتال, شادی کی تقریب۔ غرض کوئی جگہ یا موقع نہ تھا جہاں آلِ سعود نے بیگناہ شہریوں پر بمباری نہ کی ہو۔ ستم بالائے ستم تباہ شدہ ملبوں پر ایک سے زائد بار بمباری کی گئی۔ ان لشکریوں نے بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے یمن میں خوراک و ادویات کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا کی۔ نتیجتا یمنی عوام کو تاریخ کی بدترین قحط سالی کا سامنا کرنا پڑا اور ہزاروں لوگ بشمول بچے موت کا شکار ہوئے۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم نے سعودی عرب سے یمن پر بمباری روکنے کا مطالبہ کیا لیکن طاقت اور اقتدار کے نشے میں دھت آلِ سعود نے کسی کی نہ سنی۔ وہ جنگ جو حوثی باغیوں کو کچلنے کے نام پر شروع ہوئی, چار سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔

آخر ایسی کون سی قوت تھی جس نے حوثی قبائل کو جدید ترین اسلحہ سے لیس ممالک (سعودی عرب و متحدہ عرب امارات) کے سامنے پسپا نہ ہونے دیا۔ کیا حوثی انصاراللہ کے پاس دفاع کے لئے پہلے سے جدید اسلحہ موجود تھا؟ کیا ان کو کوئی بیرونی لاجسٹک سپورٹ فراہم ہورہی تھی؟ ان دونوں سوالوں کا جواب یقینا "نہیں” ہے۔ حوثی ایک قبائلی قوم ہے لہذا اس کے لئے ازخود جدید ترین اسلحہ تیار کرنا نہایت مشکل کام تھا۔ دوسرا یہ کہ جنگی حالات میں یمن کی سرحدوں پر ناکہ بندی کی وجہ سے بیرونی اسلحہ کی ترسیل بھی ناممکن تھی۔

پھر ایسا کیونکر ممکن ہوا کہ پچھلے چند ہفتوں میں یمنی فوج نے سعودی ڈرونز کو زمین بوس کیا اور اس کی اہم تنصیبات بشمول دارالحکومت ریاض, آئل ریفائنری اور ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا۔ یقینا آلِ سعود یمن کی کم افرادی قوت سے دھوکہ کھاگئی اور یہ بھول گئی کہ جنگ طاقت سے نہیں قوتِ ایمانی سے لڑی جاتی ہے۔ بھلا عیاش اور کبابی سعودی فوج کا غیرت مند اور حریت پسند حوثی قبائل سے کیا مقابلہ؟ یمن کے عوام نے بھوک اور قحط کو برداشت کیا, لاشیں اٹھائیں لیکن اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کیا اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے میزائل تیار کیے۔

اب دو ماہ سے زائد عرصہ ہوا یمنی فوج نے سعودی عرب کے تقریبا 1200 کلومیٹر علاقہ پر اپنا اثرورسوخ قائم کر لیا ہے۔ اس ذلت آمیز شکست کو دیکھتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے گھٹنے ٹیک دیے اور اپنے فوجی دستوں کو یمن سے واپس بلانے کا آغاز کردیا جبکہ کروڑوں ڈالرز کا اسلحہ استعمال کرنے کے باوجود آلِ سعود حوثیوں کو کچلنے میں ناکام ہوگئی۔ سعودی حکومت نے یمن جنگ پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جس سے اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور سعودی عرب کی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔

جیسے جیسے یمنی فوج کے سعودی عرب پر حملوں میں تیزی آتی جارہی ہے ویسے ویسے آلِ سعود کے جنگ سے دست بردار ہونے کے آثار واضح ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس وقت یمنی قوم سونگھنے والے سانپ کی مانند ہے جس نے آلِ سعود کی بولتی بند کر دی ہے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سعودی عرب یمن جنگ ہار چکا, بس اعترافِ شکست باقی ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …