جمعہ , 19 اپریل 2024

کشمیر امریکہ کا نیا گوشۂ عافیت؟

(عارف بہار)

پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت پر شب خوں مارا ۔پاکستان کے لئے یہ قطعی غیر متوقع عمل تھا کیونکہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ایک موہوم امید پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مسائل کے حل کے لئے بات چیت کی دعوت دے رہے تھے۔بہت سوں کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ بھارت میں سخت گیر ہندوئوں کا نمائندہ جب بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے گا جس کا پہلے ہی اندازہ ہورہا تھا تو وہ انتخابی ضرورتوں اور سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہو کر خطے کے مستقبل اور آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچ کر فیصلے کرے گا مگر پانچ اگست کو یہ اس وقت سارے خیال اور خواب چکنا چور ہو گئے جب بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے انتہائی متکبرانہ لب ولہجے میں کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کا اعلان کیا ۔یوں مودی کے اچانک فیصلے نے عمران خان کو بھی سوچ اور حکمت عملی کے نئے انداز اپنانے پر مجبور کیا ۔نریندر مودی نے عملی طور پر ان کا دست ِتعاون جھٹک دیا تھا ۔جس طرح عمران خان اور پاکستان کے لئے نریندر مودی کا یہ فیصلہ حیران کن اور اچانک تھا بالکل اسی طرح نریندر مودی اور بھارت کے لئے پاکستان کا ردعمل بھی غیر متوقع تھا ۔

پاکستان نے ایک زخمی شیر کی طرح دھاڑ کر بھارت کو جواب دینے کا راستہ چنا ۔پاکستان کے وزیر اعظم نے سب امیدیں اور خواہشات پس پشت ڈال کر نریندر مودی کی شخصیت اور فکر وفلسفے کو دنیا میں ایک خطرہ بنا کر پیش کرنا شروع کیا ۔انہیں دورحاضر کے ایک ناپسندیدہ کردار سے تشبیہ دی جانے لگی ۔پاکستان نے کنٹرول لائن پر دفاع کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد سفارتی محاذ پر یلغار شروع کی اور آج اس کا نتیجہ ہے کہ کشمیر مشرق سے مغرب تک عالمی راہنمائوں اور طاقتوں کی زبان پر ہے ۔امریکہ سے روس تک اورچین سے برطانیہ تک دنیا کے تمام ممالک کشمیر کے ایک تنازعہ ہونے کی بات کر رہے ہیں ۔بھارت کا موقف تو یہ ہے کہ کشمیر اس کا داخلی مسئلہ ہے ۔اس نے اپنے آئین میں ترمیم کی ہے جس سے کسی دوسرے ملک کی سلامتی متاثر نہیں ہوتی ۔دنیا اس موقف کو تسلیم کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔جو ممالک یہ کہتے ہیں کہ بھارتی آئین کی دفعات بھارت کا داخلی مسئلہ ہے وہ بھی ساتھ ہی یہ بات کہہ رہے ہیں کہ دونوں ملکوں کو باہمی مذاکرات سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہئے ۔گویا کہ وہ یہ تسلیم کررہے ہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے نام سے ایک مسئلہ ہے ۔وہ یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ اس کا حل ضروری ہے اور یہ حل دوطرفہ طور پر حل کیا جا سکتا ہے ۔مفادات کی بنیاد پر قائم موجودہ عالمی سیاست میں یہ توقع قطعی عبث ہے کہ کوئی ملک یا بین الاقوامی تنظیم لٹھ اُٹھا کر کسی مظلوم قوم کی حمایت میں سرگرم عمل ہو گی ۔الایہ کہ جہاں کسی بڑی طاقت کا بڑا مفاد نہ ہوگا تو پھر ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں کے مصداق سب اس مقام پر سرگرم ہوجائیں گے ۔

گزشتہ برسوں میں افغانستان اور عراق میں ہم یہ رویے دیکھ چکے ہیں۔مشرقی تیمور اور ڈارفر میں بھی ہم ان مناظر سے آشنا ہو چکے ہیں۔فلسطین بے چارگی اور کسمپرسی کا چلتا پھرتا اشتہار ہے ۔جسے اپنے اور پرائے سب تنہا چھوڑ چکے ہیں۔یہ اصولوں اور عوامی رائے کے احترام کی دنیا نہیں ۔یہاں وہ عوام اور انہی کی رائے قابل احترام ہے جوکسی بڑی طاقت کی پسندیدگی کے خانے میں فٹ بیٹھتے ہیں ۔ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں ۔وہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے ساتھ رابطہ بحال رکھے ہوئے ہیں ۔امریکہ کی ثالثی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ بھارتی فوج کو مارمار کرلکھن پور سے پار بھیج دے گا اور اس کی بیرکوں کو کشمیری جوانوں یا پاکستان فوج کے حوالے کرے گا ۔قلعہ ہری پربت سری نگر پر ترنگا لپیٹ کر سبز پرچم لہرائے گا ۔امریکہ کو ایسی کیا ضرورت پڑی ہے ؟کہ وہ اس قدر فعال کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو اس کے نفسیاتی اثرات سے بہرہ مندکرے ۔امریکہ کی ثالثی دودھاری چھری ہے ۔اس ثالثی سے کشمیر کا سٹیٹس کو ٹوٹ جائے تو اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہئے کیونکہ وادی کشمیر کے عوام نے آزادی اور استخلاص وطن کے لئے قربانیوں کی طویل تاریخ رقم کی ہے ۔امریکہ اب بھی کشمیر پر ذومعنی بیانات دے رہا ہے جس کا ثبوت ایک اعلیٰ سفارت کار کا دیا گیا انٹرویو ہے ۔ امریکی وزارت خارجہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ کشمیر کی صورت حال بھارت کا اندرونی معاملہ مگر اس کے اثرات سرحدوں سے باہر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

امریکہ کی توجہ انسانی حقوق کی صورت حال پر ہے اور وہ بھارت کی حوصلہ افزائی کررہا ہے کہ زیر حراست افراد کو رہا کرے ۔امریکی عہدیدار نے بھارت کے اس موقف کو مسترد کیا کہ اب مذاکرات آزادکشمیر پر ہوں گے ۔ عہدیدارنے اسے بھارتی حکام کے ”سٹینڈرڈ ٹاکنگ پوائنٹس ”قرار دیا۔اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ امریکہ کنٹرول لائن کو عالمی سرحد بنانے کا مشورہ نہیں دے گا۔کنٹرول لائن کو مستقل سرحد قرار دینے سے لاتعلقی اور مسئلہ کشمیر کو آزادکشمیر تک محدود کرنا دونوں بھارتی موقف کا حصہ ہیں اور امریکہ کی اعلیٰ عہدیدار نے مہذب انداز سے ان دونوں باتوں کو مسترد کر دیا ہے ۔یہ اس بات کا اشارہ ہے امریکہ کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی دلچسپی لے رہا ہے ۔ افغانستان سے رخصت ہوئے امریکہ کوچین کے پہلو اور ہمالہ کے دامن میں ایک گوشہ ٔ عافیت حاصل ہوجانا کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …