جمعہ , 19 اپریل 2024

محمود عباس کے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کے بے بنیاد نعرے!

تقریبا ایک مہینہ پیشتر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اعلان کیا کہ وہ جلد ہی اسرائیل کے ساتھ تمام معاہدے معطل کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس اعلان پر عمل درآمد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا مگر فلسطینی مرکزی کونسل کے اسرائیل کے ہر طرح کے بائیکاٹ کے مطالبے کے بعد یہ پہلا موقع نہیں تھا جب فلسطینی اتھارٹی نے اس نوعیت کا اعلان کیا بلکہ اس سے قبل فلسطینی اتھارٹی آٹھ بار اس نوعیت کے اعلانات کرچکی ہے۔

چار سال قبل فلسطینی سینٹرل کونسل نے مارچ 2015ء کو فلسطینی اتھارٹی سے سفارش کی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جاری تمام معاہدے معطل کرے۔ عالمی قونین پرعمل درآمد کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کیا جائے۔ اگر اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ طے پائے معاہدوں پرعمل درآمد نہیں کرتا تو فلسطینی اتھارٹی کو صہیونی ریاست کےساتھ کسی قسم کا معاہدہ برقرار نہیں رکھنا چاہیے۔

جب فلسطینی مرکزی کونسل نے یہ مطالبہ کیا تو اسی وقت تحریک فتح کے بعض رہ نمائوں نے اس پرعمل درآمد میں شبے کا اظہار کیا تھا۔ جماعت کی مرکزی کمیٹی کے رکن جمال محیسن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کےساتھ تمام معاہدے ختم کرنے کے لیے کئی پہلوئوں سے کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی جو سیکیورٹی اور اقتصادی امور کا جائزہ لے گی۔

ایک ماہ گذر گیا مگر عمل درآمد ندارد
تحریک فتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن عباس زکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کے اعلان میں سیکیورٹی تعاون ختم کرنا بھی شامل ہے مگر ایک ماہ گذرجانے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا مگر زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔

تجزیہ نگار عماد محسن نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کا اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون جاری رکھنا فلسطینی قوم کے اجماعی فیصلوں سے صریح انحراف ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے اعلانات، دعووں اور قوم سے کیے گئے وعدوں پرعمل درآمد کے حوالے سے کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے محسن نے کہا کہ مرکزی کونسل اور فلسطینی اتھارٹی کی قیادت متعدد بار اسرائیل کے ساتھ جاری معاہدوں پرعمل درآمد معطل کرنے کی بات کر چکی ہے۔ ان اعلانات میں اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کا اعلان بھی شامل ہے مگرعملا ایک ماہ گذر جانے کے باوجود زمین پرکوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اسرائیلی قبضے میں شدت
فلسطینی تجزیہ نگار عثمان عثمان نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کے اعلانات پرعمل درآمد اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے وقت درکار ہے تاکہ بائیکاٹ کے اعلانات پر عمل درآمد کے لیے گرائونڈ ہموار کیا جائے۔ یہ اعلان صرف اسرائیل پردبائو ڈالنے کا ایک ذریعہ نہیں بلکہ دنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے ہونا چاہیے کہ فلسطینی قوم اپنے حقوق کے حصول کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ بائیکاٹ کے اعلانات کو کامیاب بنانے کے لیے زمین میں بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگار نے کہا کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے خلوص نیت،بھرپور تیاری اور عملی اقدامات کا جذبہ درکار ہے۔ فلسطینی اتھارٹی میں یہ تینوں خوبیاں موجود نہیں۔ اسرائیل کو فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے دی گئی دھمکیوں کی اس لیے پرواہ نہیں کیونکہ اس طرح کے اعلانات ماضی میں بھی ہوتے رہے مگران پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں کیا گیا۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …