ہفتہ , 20 اپریل 2024

صہیونیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی

(تحریر: صابر ابو مریم)

صہیونیوں کی غاصب و جعلی ریاست اسرائیل گذشتہ کئی برس سے مسلسل کئی ایک محاذوں پر شکست سے دوچار ہو رہی ہے، اگر اندرونی طور پر بات کی جائے تو جعلی ریاست کے اندر اس کے حکمرانوں پر کرپشن سمیت نہ جانے کئی ایک ایسے الزامات ہیں، جس کے باعث کسی بھی وقت ان کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ انہی مسائل میں سیاہ فام صہیونیوں کے ساتھ نسلی امتیاز کا معاملہ بھی صہیونیوں کی جعلی ریاست اور اس کی حکومت کے لئے وبال جان بن چکا ہے۔ اگر بیرونی سطح پر جائزہ لیں تو گذشتہ سات برس میں صہیونیوں کے تمام نئے ہتھکنڈے جو انہوں نے سنہ 2006ء کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد شروع کئے تھے، سب کے سب بری طرح ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں۔ صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم داعش شام، عراق، لبنان سرحد سمیت متعدد مقامات پر شکست کھا چکی ہے اور داعش مخالف قوتوں جن میں ایران، شام، لبنان، حزب اللہ سمیت روس اور چین کی حمایت شامل ہے، ان کاپلڑا بھاری نظر آ رہاہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنی اسی شکست کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کے لئے براہ راست میدان میں کود پڑا ہے۔ کبھی براہ راست شامی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے تو کبھی شام کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن شام بھی مسلسل اسرائیل کی جارحیت کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کے تمام حملوں کو پسپا کر رہا ہے اور اپنے دفاع پر کسی قسم کا دباؤ اور سودے بازی کرنے پر رضامند نہیں ہے۔ دنیا کی نام نہاد امن پسند قوتوں بشمول امریکہ و برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے شام کے خلاف تمام ہتھکنڈے آزما لئے ہیں، لیکن شام صہیونی اسکیم کے تحت شروع کی گئی اس جنگ میں ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔

اسرائیل نے گذشتہ دنوں پچیس اور چھبیس اگست کی درمیانی شب کو شام، لبنان اور عراق کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے، لیکن دنیا کی بڑی بڑی نام نہاد حکومتیں اس خلاف ورزی پر خاموش ہیں۔ شام میں ایک فوجی ٹھکانہ کو اسرائیلی ڈرون نے نشانہ بنا کر وہاں پر موجود دو حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے کمانڈروں کو شہید کیا، اسی طرح عراق میں بھی ایک سینیئر کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا جبکہ اسی رات لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مضافاتی علاقہ ضاحیہ کی سول آبادی والے علاقے کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، تاہم اس کوشش میں اسرائیل کے دونوں ڈرون طیارے تباہ ہوگئے جبکہ دوسری طرف کوئی جانے نقصان نہیں ہوا ہے۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے جس دن حملہ کا انتخاب کیا، اسی دن حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے شام کو ایک سالانہ تقریب بعنوان لبنان و شام سرحد پر داعش کے خلاف فتح کے خطاب کرنا تھا۔ اسرائیل کی اس بھونڈی حرکت سے پوری دنیا کی سیاست کی نظریں لبنان پر اس وقت گڑھ گئیں، جب صبح دو اسرائیلی ڈرون طیارے تباہ ہوئی اور مغربی میڈیا نے خبر دی کہ حزب اللہ نے دونوں ڈرون طیاروں کو تباہ کر دیا ہے، لیکن تنظیم کے عہدیدار محمد عفیف نے واضح کیا کہ حزب اللہ نے کسی ڈرون کو نشانہ نہیں بنایا اور مزید تفصیلات تنظیم کے سربراہ سید حسن نصر اللہ آج شام اپنے خطاب میں بیان کریں گے۔

غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے صہیونی آبادکار اور حکومت پہلے ہی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ حزب اللہ قیادت اس طرح کی بھونڈی حرکتوں پر خاموش بیٹھنے والی نہیں ہے اور یقیناً سید حسن نصر اللہ کوئی اہم اعلان کریں گے۔ اسی طرح امریکی اعلیٰ عہدیدار مائیک پومپیو نے بھی لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ کسی بھی طرح معاملہ کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس بارے میں سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر میں کہہ دیا کہ لبنان حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ سمیت سلامتی کونسل اراکین کو اسرائیل کی کھلی خلاف ورزیوں پر احتجاج کرے، لیکن حزب اللہ اسرائیل سمیت کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ رونما ہو اور ہماری فضائی حدود کی خلاد ورزی کی جائے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے سنہ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے بعد پہلی مرتبہ براہ راست لبنان کے کسی علاقہ کو اس طرح نشانہ بنانے کی جرات کی ہے۔

دوسری طرف مقبوضہ فلسطین کے اندر خطرے کا سائرن بج چکا ہے، کیونکہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر کے دوران صہیونی فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتظار کرو اور دیکھو کہ ہم کس وقت اور کس طرح تم سے اس کا انتقام لیتے ہیں۔ انہوں نے نیتن یاہو کو کہا کہ تمھیں ایک ٹانگ پر کھڑا کر دیں گے۔ ہم کسی صورت اسرائیل کو معافی نہیں دے سکتے۔ صہیونی آباد کار پہلے ہی سید حسن نصر اللہ کے بارے میں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ شخص کبھی جھوٹ نہیں بولتا ہے اور جب بھی جو کہتا ہے، وہ کرتا ہے۔ صہیونیوں آباد کاروں نے اپنے بنکروں میں جانا شروع کر دیا ہے، کیونکہ گذشتہ دو روز سے لبنان کے شمالی سرحدی علاقوں میں اسرائیلی فوجیوں کی پریشانی بھی بڑھتی ہوئی پائی گئی ہے اور اسرائیل کا سب سے جدید سسٹم آئرن ڈوم کی بیٹریاں بھی نصب کی جا رہی ہیں، تاہم یہ اس بات کی غمازی ہے کہ اسرائیلی فوجی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور جانتے ہیں کہ حزب اللہ کے سربراہ نے بات کی ہے، وہ یقیناً عمل کریں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ وقت بتائے گا، کیونکہ خود حزب اللہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ انتظار کرو، ہم تمھیں سبق سکھائیں گے۔ ایک دن، دو دن، تین یا چار دن، کس وقت، کیسے اور کب یہ ہم خود فیصلہ کریں گے۔ اسرائیل کے لئے یہ صورتحال شدید سنگین اور خطرناک صورتحال میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہے، ایک طرف اندرونی خلفشار بڑھ رہا ہے، دوسری طرف حزب اللہ کے ساتھ ماضی کی 33 روزہ جنگ میں پہلے ہی اسرائیل کو بدترین شکست کا سامنا ہوا تھا، جس کو کوئی بھی صہیونی فراموش نہیں کرسکا ہے۔ خود جعلی ریاست اسرائیل کی صورتحال یہ ہے کہ دیواروں پر دیواریں کھڑی کرکے خود کو محدود کر رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں اسرائیل کے لئے کسی بھی جنگ کا متحمل ہونا ناممکن ہے۔ بہرحال اسرائیل نے لبنان سمیت کئی ایک ملکوں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے، جس پر یقیناً خاموش رہنا مناسب عمل نہیں ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے پہلے بھی مقبوضہ فلسطین میں آکر آباد ہونے والے صہیونی آباد کاروں کو متنبہ کیا تھا کہ اپنے اپنے وطن میں واپس لوٹ جائیں، ورنہ نیتن یاہو اس جنگ میں ایندھن کے طور پر انہی آباد کاروں کو استعمال کرے گا۔ اسرائیل پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں، لہذا صہیونی آباد کار اپنے بنکروں میں چلے جائیں اور عنقریب صہیونیوں کی جعلی ریاست ایسے ہی کسی معرکہ میں نابود و زوال پذیر ہوگی اور اللہ کا وعدہ بیت المقدس کی آزادی کے ساتھ حتمی پورا ہو کر رہے گا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …