بدھ , 24 اپریل 2024

کشمیریوں کا مقدمہ۔ کشمیریوں کی قیادت میں

(محمود شام)

دو روز سے ’’کشمیر میں ٹوٹنے والے مظالم‘‘، ’’مودی کی انتہا پسندی‘‘ پاکستان کا مسئلہ نہیں رہی۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں توسیع پاکستانیوں کا موضوع سخن زیادہ بنی ہوئی ہے۔ میں غالبؔ کو ذرا سے تصرّف کے ساتھ یاد کروں گا۔

ہوئی ’توسیع‘ تو کچھ باعثِ ’توسیع‘ بھی تھا

اس کے باوجود یہ کہنا چاہوں گا کہ تاریخ کا پہیّہ منطق کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ اسے پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا۔ پانی معمول کے مطابق بہتا رہے تو صاف ستھرا رہتا ہے۔ اسے روکا جائے تو اس کا رنگ بھی میلا ہو جاتا ہے اور مہک بھی کم ہو جاتی ہے۔ اہمیت اداروں کی ہوتی ہے۔ شخصیات کی نہیں۔

کشمیر میں بھی تاریخ اور منطق کی خواہش تو یہی تھی کہ وہاں عوام کو یہ حق دیا جاتا کہ وہ رائے دیں کہ وہ پاکستان یا بھارت میں کس ملک سے الحاق چاہتے ہیں۔ بھارت کی مختلف حکومتیں اس منطقی اور تاریخی پیشرفت کی راہ میں بند باندھتی رہیں۔ پاکستان اپنے اندرونی اختلافات اور سیاسی محاذ آرائی میں الجھا رہا۔ سیاسی جماعتوں کے آپس میں تصادم بھی۔ سیاستدانوں اور فوج کے درمیان کشمکش بھی۔ 1971کی قیامت برپا ہوگئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی طرف دیکھنا کم کر دیا۔ عالم اسلام بھی بھارت کی بڑی مارکیٹ کے افسوں میں کھو گیا۔ مگر کشمیری جانبازوں نے اپنی آزادی کی جدو جہد جاری رکھی۔

پاکستان کے سیاسی اور فوجی دونوں حکمرانوں نے کشمیر کے آزاد ہوجانے والے حصّے کی اہمیت کا احساس نہیں کیا۔ اس کے سیاسی اور معاشی اثاثوں کو نظر انداز کیا۔ اس کا سہارا لے کر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے عالمی افق پر سیاسی اور سفارتی جنگ کرنے کے بجائے اسے اپنے صوبوں سے بھی کم تر اہمیت دی۔ سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ وہاں پاکستانی سیاسی پارٹیوں کو سرگرمیوں کی اجازت دے دی جس سے یہ آزاد علاقہ اور زیادہ منقسم ہو گیا۔ آسٹریلیا کے محقق کرسٹوفر سنیڈن نے اپنی مبسوط اور انتہائی اہم تصنیف The Untold Story of People of Azad Kashmirمیں یہ افسوس ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کی آئینی خود مختار حیثیت کو تسلیم کروانے میں نااہلی نے کشمیر پر موقف کو نقصان پہنچایا۔ ایک تو اسے آزاد خود مختار مملکت نہ ماننا۔ دوسرا حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد جموں کشمیر کی حکومت کی اقتصادیات میں تقویت نہ پہنچانے سے آزاد جموں و کشمیر حکومت اور اپنے آپ کو دنیا کے سامنے کشمیر کے عوام کی واحد اور حقیقی نمائندہ تنظیم کے طور پر پیش نہ کرسکی۔ اقوام متحدہ نے اسے صرف مقامی اتھارٹی تسلیم کیا۔

2012میں شائع ہونے والی یہ کتاب 1947سے صدر آصف زرداری کے دور تک کشمیر کے تنازع اور بالخصوص آزاد جموں کشمیر میں ہونے والے آئینی، قانونی، اقتصادی اور سیاسی نشیب و فراز کا تفصیل سے جائزہ لیتی ہے۔ ماحصل یہ ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے تناظر میں آزاد جموں و کشمیر حکومت کو وہ اہمیت نہیں دی جو اس کا حق تھا جبکہ بھارت نے آزاد کشمیر کے وجود کو پختون قبائل کی یلغار اور لوٹ مار کے پروپیگنڈے سے دنیا کی نظروں میں گرایا۔

اب جب نریندر مودی نے تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی ہے، کشمیر ایک بار پھر عالمی اُفق پر ایک خطرناک تنازع کی حیثیت اختیار کرگیا ہے یہی موزوں ترین وقت ہے کہ ہم آزاد جموں و کشمیر کو دنیا کے سامنے کشمیریوں کی اپنی جائز منتخب نمائندہ مملکت کے طور پر پیش کریں۔ سب سے پہلا قدم یہ ہو کہ آزاد کشمیر میں پاکستان کی سیاسی پارٹیاں تحلیل کر دی جائیں۔ ان پارٹیوں کے رہنما اور کارکن آزاد کشمیر کی مقامی سیاسی تنظیموں کی طاقت بن جائیں۔

دیکھیں دنیا یہ توقع کر رہی ہے کہ سب سے زیادہ انسانی آبادی والے جنوبی ایشیا میں انسانی زندگی کی آسانیاں ہوں۔ محاذ آرائی ختم ہو۔ یہاں کے ایک ارب سے زیادہ انسان اکیسویں صدی کی ساری سہولتوں سے فیضیاب ہوں۔ آزادانہ سفر کر سکیں۔ تجارت کی آسانی ہو۔ اس کے بر عکس جب مودی مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ بند کرے۔ نقل و حرکت پر پابندی لگائے، غاصب فوج کی تعداد میں اضافہ کرے تو دنیا اور خاص طورپر سنجیدہ طبقہ مایوس ہوتا ہے۔ یہی وقت ہے جب آزاد جموں و کشمیر حکومت دنیا کے سامنے بھارت کے پنجۂ استبداد میں پھنسے اپنے کشمیری بھائیوں کا مقدمہ بہت موثر انداز میں پیش کرسکتی ہے۔ جب دنیا کشمیریوں کے مصائب و آلام کشمیریوں کی زبانی سنے گی تو زیادہ اعتبار کرے گی۔

پاکستان پر تنگ نظری انتہا پسندی کا الزام لگانے والی دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس وقت انتہا پسند کون ہے۔ یہ ظلم، نا انصافی اور جبر مغرب کی پسندیدہ جمہوریت کا سربراہ کر رہا ہے۔ اس میں پاکستان کے جہادیوں کا کوئی دخل ہے نہ پاکستانی فوج کا اور نہ ہی پاکستانی سیاستدانوں کا۔ دنیا جارح اور مجروح، ظالم اور مظلوم میں امتیاز کرے۔ ترقی یافتہ دنیا کا فرض ہے کہ بھارت کے عوام کو بھی ان شدت پسندوں سے نجات دلائی جائے۔

پاکستان کی حکومت، سیاسی پارٹیاں، میڈیا اور سوشل میڈیا، سب یہ سوچیں کہ اس لمحے کو گرفت میں کیسے لینا ہے۔ مودی کی اس تاریخی غلطی سے فائدہ کیسے اٹھانا ہے۔ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی راستے بے شمار ہیں۔ کیا ہم ان میں سے صحیح راستہ چننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

میڈیا ٹاک شوز میں، سوشل میڈیا پر اپنی ہی حکومت، اپنے قائدین کو امریکی سازش میں شامل ہونے کا الزام دینا بہت آسان ہے لیکن اس سے ظاہر کیا ہوتا ہے کہ آپ اس جدو جہد آزادی کا حصّہ بننے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کارروائی یا اقدام بتائیں جو اس وقت پاکستانی حکومت یا فوج کو کرنا چاہئے۔بشکریہ جنگ نیوز

تاریخ نگراں ہے۔ آسماں دیکھ رہا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …