جمعہ , 19 اپریل 2024

بندر کے ہاتھ میں استرا اور فضائی حدود کی بندش؟

(مشتاق احمد شباب)

بڑھکیں دونوں جانب سے ماری جارہی ہیں،سیانوں نے کہا تھا کہ تو لو پھربولو مگر حرام ہو جو کبھی لوگوں نے اس پر عمل بھی کیا ہو اس لیئے بڑھک پہ بڑھک اور جواب میں بھی بڑھک بلکہ بڑھکیں،جن سے اندازہ لگتا ہے کہ بندر کے ہاتھ استرا آگیا ہے،جی ہاں ایٹم بم نہیں کوئی چائنہ کا بنا ہوا کھلونا ہے بلکہ پٹاخہ جو ایک طرف سے دیوالی پر چلانے کی بات کی جارہی ہے تو دوسری جانب سے جواب آں غزل کے طورپر ہم نے بھی یہ’’کھلونے‘‘شب برات پر پھوڑنے کیلئے نہیں بنائے،ارے خدا کے بندو،یہ چھوٹا منہ بڑی بات نہیں ہے کہ جس کا جب جی چاہے جو جی چاہے بول دے،ویسے خدا لگتی کہیئے تو ہندوبنیئے سے کچھ بھی بعید نہیں،اور وہ جو کہتے ہیں نا کہ بچے کا پالنے ہی میں پتہ چل جاتا ہے تو جب پاکستان نے ابھی ایٹمی تجربات کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا،حالانکہ دنیا جانتی تھی کہ پاکستان نے نیوکلئیر ویپن بنالئے ہیں اور بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا تو بھارت کے بڑبولے،کم ظرف لیڈران اچھل اچھل کر نہ صرف بھنگڑے ڈال رہے تھے بلکہ انہوں نے پاکستان کو دھمکیاں دینا بھی شروع کردی تھیں،حالانکہ اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے تب کے وزیراعظم نواز شریف کو جوابی دھماکے کرنے سے باز رکھنے کیلئے ڈالروں کی بارش کی ترغیب بھی دی اور پاکستان چاہتا تو تب پاکستان کے خلاف واجب الادا قرضے بھی معاف کرواسکتا تھا مگر قومی سلامتی کا تقاضا کچھ اور تھاکہ بھارت کو اسی کے لہجے میں جواب دیکر خاموش کردیا جائے۔

یوں پاکستان نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں ایٹمی دھماکے کر کے بھارتی غرور کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا تھا تاہم پاکستان نے جو کچھ اس وقت کیا وہ ایک ڈیٹرنٹ کے طور پرایٹمی کور حاصل کرنا تھا،یعنی دشمن کو یہ احساس دلانا تھا کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا،اگرتمہارے پاس ایٹمی قوت ہے تو ہم اس سے زیادہ طاقت کے مالک ہیں، اس کے بعد میزائلوں کی جو دوڑ دونوں ملکوں کے بیچ شروع ہوئی ہے تو اس میں بھی اللہ کی مہربانی سے پاکستان کو تکینکی حوالوں سے برتری حاصل ہے،مگر مقبوضہ کشمیر میں حالات کو اپنی سمت موڑنے کے بعد بعض بڑبولے بھارتی وزراء ایک بار پھر اچل رہے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کے سمجھوتے کی دھجیاں اڑانے کے بیانات سے دنیا کے امن کو تہہ وبالا کرنے پر مبنی بیانات دیکر گویا پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں،جس کا جواب ایک وفاقی وزیر کے بعد ایک صوبائی وزیر نے بھی اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو شب برات میں پھوڑنے کیلئے سنبھال کر نہ رکھنے جیسے بیانات کی صورت دیا ہے ،جو ہماری دانست میں دونوں جانب سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیئے ،اس قسم کے جذباتی بیانات سے چند پرجوش پارٹی کارکنوں کو تو خوش کیا جا سکتا ہے مگر حکومتوں کی پالیسیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا،بات چلتے چلتے فضائی حدود تک آپہنچی ہے،جس پر بات کرنے سے پہلے بقول شاعر

مقطع میں آپڑی ہے سخن کسترانہ بات

ابھی یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ساتھی کالم نگار پروفیسر تنویر احمد کا میسج ملا،انہوں نے گزشتہ روز کے میرے کالم’’زینڈا اورانڈ یمان کے قید خانے‘‘کے حوالے سے میری تصحیح فرمائی ہے ،انہوں نے کہا کہ جس ناول کا میں نے اپنے کالم میں تذکرہ کیا ہے وہ’’کائونٹ آف مائنی کرسٹو‘‘ہے نہ کہ پریزنر آف زینڈا،چونکہ تنویر صاحب کالج میں انگریزی اور اردو کے طلباء کو پڑھاتے ہیں اس لیئے میرے حافظے کے مقابلے میں ان کا علم زیادہ قابل اعتماد ہے،اس لئے اس رہنمائی پر نہ صرف ان کا شکرگزر ہوں بلکہ اپنے قارئین سے معذرت خواہ بھی کے مذکورہ ناول اپنی طالب علمی کے زمانے میں1965ء میں پڑھا تھا اور ظاہر ہے دونوں ناولوں کو خلط ملط کردیا، اب تقریباً54سال کا عرصہ معمولی تو نہیں یعنی بقول حفیظ جالندھری

نصف صدی کا قصہ ہے دوچاربرس کی بات نہیں

ہاں تو بات ہورہی تھی بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش کی جس پر تادم تحریر کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا،البتہ اس معاملے نے ایک دو واقعات ضرور یاد دلائے ،جن میں سے ایک تو بھارتی طیارے’’گنگا‘‘ کا واقعہ ہے جس نے پاکستان کی تاریخ بدل ڈالی تھی،گنگا کو دو کشمیری نوجوانوں اقبال اور ہاشم نے اغواء کر کے لاہور میں اتارا تھا،مبینہ طور پر اگرچہ ان کا تعلق حریت تحریک سے بتایا جاتا تھا،جبکہ لاہور ہوائی اڈے پر ان سے ملنے ایک اور کشمیری رہنماء مقبول بٹ(پشاور میں صحافت سے وابستہ رہے تھے) اور بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو گئے،بھٹو مرحوم نے دونوں ہائی جیکروں کا لاہور میں جلوس نکال کر گھمایا،مگر جب ان ہائی جیکروں نے گنگا کو آگ لگا کرد ھماکے سے اڑا دیا تو بھارت نے پاکستانی طیاروں کیلئے بھارتی فضائی حدود بند کردیں جس کے نتیجے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے مشرقی پاکستان کا تحفظ ممکن نہیں رہا اور اسے بنگلہ دیش بنانے کی سازش کا میاب ہوئی۔دوسرا طیارہ غالباً چند سکھ ہائی جیکروں نے اغواء کر کے پاکستان میں اتارا مگر ہائی جیکروں کو طیارے کیلئے ایندھن فراہم کر کے پاکستان سے نکلنے اور پھرافغانستان میں طیارہ اتارنے پر مجبور کردیا گیا ،یوں شاید ایک اور ممکنہ سازش کو ناکام بنادیا گیا،ان دونوں واقعات پر پھر کبھی کہ کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …