جمعرات , 18 اپریل 2024

کیا حزب اللہ لبنان کی جوابی کاروائی مکمل ہو گئی ہے یا جاری ہے؟

تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)

حال ہی میں حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کی ایک فوجی بکتر بند گاڑی کو ٹینک شکن میزائل کورنٹ سے نشانہ بنایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدام وہی جوابی کاروائی ہے جس کا وعدہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں دیا تھا۔ یا یہ اقدام جوابی کاروائی کے سلسلے کی پہلی کڑی ہے اور مزید اقدامات متوقع ہیں۔ لبنان اور اسرائیل کے درمیان ایک طویل جنگ سے بچنے اور جنگ بندی کے قیام کیلئے انجام پانے والی کوششیں کس حد تک کامیاب ہوئی ہیں؟ اور آخرکار یہ کہ ہم کس دلیل کی بنیاد پر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ بنجمن نیتن یاہو نے اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف جو کھیل شروع کیا تھا اس میں اسے واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے؟ اتوار یکم اگست کی سہ پیر حزب اللہ لبنان نے ایک بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے لبنان کی سرحد کے قریب مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل آرمی کی ایک بکتر بند گاڑی کو تین کورنٹ میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں اس میں سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل آرمی نے اس حملے کی تصدیق تو کر دی لیکن دعوی کیا کہ اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ لبنان کی اس کاروائی کے بعد جنوبی لبنان کو گولہ باری کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح اسرائیلی میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی کاروائی کے بعد حیفا کے اسپتال میں تین زخمیوں کو لایا گیا ہے۔ ابھی تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ حزب اللہ لبنان کی یہ فوجی کاروائی وہی ہے جس کی وارننگ سید حسن نصراللہ نے دو اسرائیلی ڈرون طیاروں کے حملے میں شہید ہونے والے حزب اللہ لبنان کے دو مجاہدوں کا بدلہ لینے کیلئے دی تھی۔ اسرائیل آرمی نے اعلان کیا ہے کہ شمالی علاقوں میں ایمرجنسی حالت بدستور نافذ رہے گی۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اسرائیل سے انتقامی کاروائی کے بارے میں کہا تھا: "ہمارا جواب ملک کی قومی سلامتی کے تحفظ اور دشمن کو جارحانہ اقدامات روکنے پر مجبور کرنے کیلئے دیا جائے گا۔” کیا اتوار کے دن اسرائیل کے خلاف انجام پانے والا اقدام اسی وعدے کی تکمیل تھی؟

اس سوال کا جواب ہاں بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔ ہاں اس لئے کہ حزب اللہ لبنان نے انتقام لیتے ہوئے اسرائیل کی فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ البتہ اس بار حزب اللہ لبنان نے 2014ء اور 2016ء کی طرح شبعاء چراگاہوں کی حد تک کاروائی نہیں کی اور یوں اسرائیلی حکام کو ایک بہت اہم پیغام بھی دیا ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ اگر اسرائیل 2006ء کی جنگ کے بعد حکمفرما ہونے والے قوانین کی خلاف ورزی کرے گا تو حزب اللہ لبنان بھی خود کو ان قوانین کے اندر محدود نہیں کرے گی۔ دوسری طرف مذکورہ بالا سوال کا جواب نہیں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حالیہ جوابی کاروائی کی شدت اس قدر نہیں تھی جتنی حزب اللہ لبنان سے توقع کی جا رہی تھی۔ کیونکہ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ انتقامی کاروائی اسرائیل کی جانب سے بیروت کے جنوبی علاقے میں حزب اللہ لبنان کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے مقابلے میں انتہائی کم سطح کی تھی۔ گذشتہ چند دنوں میں لبنانی اور عرب میڈیا نے ایسی رپورٹس پیش کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے اندر اور باہر سے سید حسن نصراللہ پر اس بارے میں دباو ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی وسیع انتقامی کاروائی انجام نہ دیں۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سید حسن نصراللہ نے عارضی طور پر ہی سہی اس بات کا خیال رکھا ہے تاکہ لبنان کے اندر اپنی حریف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک کی قومی سلامتی داو پر لگائے جانے کے الزام سے روبرو نہ ہوں۔ انہوں نے ایسا فیصلہ کر کے یہ پیغام پہنچایا ہے کہ حزب اللہ لبنان کیلئے ملک کی قومی سلامتی کا تحفظ اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف ایک اور مفروضہ بھی گردش کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان کی حالیہ کاروائی وہ انتقام نہیں ہے جس کی دھمکی سید حسن نصراللہ نے اسرائیل کو دی تھی اور اسرائیلی حکام اس کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں بلکہ یہ کاروائی ایک مقدمہ تھی۔ بنجمن نیتن یاہو اس وقت اسرائیل کے وزیر جنگ بھی ہیں۔ انہوں نے قریب الوقوع الیکشن میں شدت پسند دھڑوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے عراق اور لبنان میں دہشت گردانہ اقدامات انجام دیے تھے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ حزب اللہ لبنان ان کی ریاستی دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ حزب اللہ لبنان حتی حالیہ انتقامی کاروائی سے بھی زیادہ وسیع حد تک جواب دینے کی طاقت رکھتی ہے۔بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …