ہفتہ , 20 اپریل 2024

اسلامی امارت افغانستان

(سید شکیل احمد)

طالبان کے نمائندوں اور امریکی نمائندوں کے درمیان گزشتہ اتوار کے روز دوحہ میں ایک عبوری معاہدے کی دستاویز پر اتفاق رائے ہو گیا ہے جس کی تصدیق دونوں فریقین کی جانب سے کر دی گئی ہے، عبوری معاہدے پر اتفاق رائے کے فوری بعد افغان نژاد امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کابل چلے آئے جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے دو طویل ملاقاتیں کیں اور معاہدے کی شقوں پر تبادلہ خیال کیا، امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اخباری نمائندوں کو بتایا ہے کہ عبوری معاہدے پر فریقین کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے توثیق کے بعد دستخط اور عمل کیا جائے گا۔

یہ اطلاعات تسلی بخش ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کی جانب اچھی خاصی پیش رفت ہوئی ہے، معاہدے کے بارے میں اطلاعات کے مطابق اس عبوری معاہدے پر عملدرآمد کے بعد بین الافغان کانفرنس کے انعقاد کے بعد مستقل معاہدہ کیا جائے گا جس کا مقصد یہ ہوا کہ اس کانفرنس میں عبوری معاہدے میں ترمیم کے امکانات اپنی جگہ موجود ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات مصفاء ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے دو ہی فریق ہیں ایک امریکا اور دوجا افغان طالبان، تاہم بین الافغان کانفرنس سے امریکا یہ چاہتا ہے کہ وہ یہ تاریخ میں درج کرائے کہ امریکا افغانستان میں شکست خوردہ ہوکر نہیں بلکہ افغان عوام کے مفاد میں نکلا ہے۔

افغانستان میں اس وقت تیرہ ہزار چھ سو کے لگ بھگ امریکی فوج موجود ہے جس میں سے عبوری معاہدے کے تحت امریکا ایک سو پنتیس دنوں میں افغانستان میں اپنے پانچ اڈوں سے تقریباً پانچ ہزار فوجی نکال لے جائے گا، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اپنے ایک تحریری پیغام میں اس امر کی تصدیق کر دی ہے۔ زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کی توثیق کے بعد افغان طالبان سے مزید مذاکرات کیلئے تاریخ اور جگہ کا تعین کیا جائے گا تاکہ بین الافغان مذاکرات کی شروعات کی جاسکے، ان مذاکرات میں جنگ بندی اور امریکی فوج کے مکمل انخلاء اور دیگر اہم امور پر بات ہوگی، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ امریکا کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں ’’اسلامی امارت‘‘ کے نام پر کوئی نظام بن جائے اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ زبردستی کوئی ایسا قدم اُٹھائیں۔

امریکی نمائندے کی یہ بات بے تکی اور لغو ہے کیونکہ کسی بھی نظام کا فیصلہ اس خطے کے باشندے کرتے ہیں کسی بیرونی طاقت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی مرضی مسلط کرے، اگر افغان عوام اپنے ملک کو اسلامی امارت قرار دیتے ہیں تو پہلی بات یہ ہے کہ امریکا کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ اس میں مداخلت کرے اور اپنی مرضی کا نظام افغانستان پر تھوپ دے، اس امریکی نیت سے یہ گمان ہو رہا ہے کہ امریکا افغانستان میں مستقبل میں مداخلت کار رہنے کا عزم کئے ہوئے ہے جو خطے میں امن کیلئے ہولناک ہے، علاوہ ازیں امریکا کو اس امر سے سبق سیکھ لینا چاہئے کہ جس وقت امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی کو عبوری معاہدے سے آگاہ کرنے کیلئے کابل ایئرپورٹ پر قدم رکھا اسی لمحے پوری دنیا میں یہ حیرت انگیز خبر موصول ہوئی کہ افغان طالبان نے قندوز پر قبضہ کر لیا۔ اس بارے میں طالبان کی طرف سے متعدد ویڈیوز بھی جاری کر دی گئی ہیں جس میں طالبان اپنی فتح کی خوشی میں اسلامی امارت افغانستان کے نعرے بھی پرجوش انداز میں لگا رہے ہیں اور یہ نعرہ بھی لگا رہے ہیں کہ اسلامی امارت افغانستان میں قائم ہوگئی ہے، جب سے امریکا افغانستان میں گھس بیٹھا ہے تب سے اب تک طالبان کی یہ سب سے بڑی فتح ہے۔

جب سے امریکا نے افغان فوج کی تشکیل کرکے ان کی تربیت کی ہے تب سے افغان فوج طالبان کے حملوں کی نہ تو تاب لاسکی ہے اور نہ کوئی کامیابی ان کے مقابلے میں حاصل کر پائی ہے، جس طرح امریکی فوج بھی طالبان سے خوفزدہ رہی ہے اور وہ کبھی بھی اپنے محفوظ ٹھکانوں سے باہر قدم نہیں رکھ پائی، ماسوائے فضائی حملوں کے اس سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے، چنانچہ امریکا کی جانب سے یہ کوشش کبھی کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے کہ وہ افغانستان چھوڑتے وقت طالبان کے مقابلے میں کوئی ایسی قوت معرض وجود میں لے آئے جو امریکی فوجوں کی عدم موجودگی میں اس کی وراثت کی نگران ہو اور عملاً وہ کام کرے جس کی اسے خواہش ہے۔ جس کا اندازہ قندوز کی فتح سے ہو جاتا ہے کہ وہاں کے قریہ وامصار، گلی کوچے اسلامی امارت کے نعروں سے گونج اُٹھے ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خود زلمے خلیل زاد کو طالبان سے مذاکرات کے لمحات میں اسلامی امارت کا لفظ استعمال کرنا پڑا ہے اس کے باوجود وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں جمہوری حکومت کو ہی تسلیم کرتا ہے اور طالبان کو محض ایک گروپ سمجھتا ہے، اگر زلمے خلیل زاد کے اس مؤقف کا تجزیہ کیا جائے تو یہ عجب سی منطق ہے کہ مذاکرات جو ہمیشہ فریق سے ہوتے ہیں کسی گروہ نہیں کئے جاتے۔ اگر طالبان محض ایک گروہ ہے تو پھر اسے فریق کی حیثیت سے مذاکرات کی میز پر کیوں بٹھایا؟۔ امریکا کو یہ بھی احساس کرنا چاہئے کہ طالبان ایسے فریق سے تھے کہ جن سے معاہدہ وہ بھی عبوری معاہدہ کرنے کیلئے نو مرتبہ مذاکرات کا تسلسل کیا، اگر طالبان کوئی گروہ ہوتا تو بات چیت گروہوں سے بھی ہوتی ہے لیکن مشترکہ طور پر ہوتی ہے، ایک فریق کے طور پر نہیںکی جاتی، اس فریق کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کا نواں سلسلہ بائیس اگست کو شروع ہوا اور کہیں جا کر یکم ستمبر کو اختتام پذیر ہوا۔

پھر گروہ کے بارے میں یہ تازہ ترین اطلاع بھی ہے کہ مذاکرات کی تکمیل کے دوسرے روز انتہائی سیکورٹی اور حساس علاقہ گرین ویلی کے کمپاؤنڈ کے قریب کابل میں خودکش حملہ کیا گیا۔ اس علاقے میں بین الاقوامی اداروں کے نمائند ے اور حکام رہائش پذیر ہیں اور اس دھماکے کی ذمہ داری بے دھڑکے طالبان نے قبول کی جس میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے اور پچاس کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں چنانچہ جس طرف سے بھی حقائق کو تسلیم کئے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کی سعی ہوگی تو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ کسی طور سودمند ثابت نہیں ہو پائے گی۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …