ہفتہ , 20 اپریل 2024

ذہین طاقت

(تحریر: محمد کاظم)

ذہین طاقت یا smart power درحقیقت فوجی طاقت اور عوام کو قانع کر کے عوامی حمایت حاصل کرنے پر مبنی نرم طاقت کے مجموعے کا نام ہے۔ ذہن طاقت درحقیقت سخت طاقت اور نرم طاقت کو ملانے کی مہارت ہے اور یہ مہارت ایک شجاع اور عقل مند لیڈر لیڈر کے پاس ہی ہو سکتی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور عالمی سیاست کے میدان میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ جیسی بے مثال شخصیت کے ظہور کے بعد علم سیاست میں طاقت کے مفہوم میں انتہائی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ امام خمینی رح اور ان کے بعد امام خامنہ ای جیسی شخصیات منظرعام پر آنے کے بعد علم سیاست میں ایک نئے مفہوم نے جنم لیا ہے جسے "ذہین طاقت” کا نام دیا گیا ہے۔ طاقت کا یہ نیا مفہوم ایسے وقت سامنے آیا جب دنیا بھر کے طاقتور سیاست دان خاص طور پر امریکی اور یورپی حکام رات بھر عیاشی اور شراب خواری میں بسر کر رہے تھے۔ اسی وقت اسلامی انقلاب کے الہی لیڈران رات بھر کائنات کی سب سے بڑی طاقت خداوند متعال کے حضور تضرع اور گریہ و زاری میں گزارتے دکھائی دیتے تھے۔ وہ خدا سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگتے نظر آتے تھے کہ انہیں انسان کو کفر، شرک اور منافقت کے تاریک اندھیروں سے نکال باہر کرنے کا راستہ دکھا دے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے معروف پروفیسر جوزف سمیوئیل نائے نے نرم جنگ کا نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ جمی کارٹر سے لے کر کلنٹن تک وائٹ ہاوس میں سینیئر تجزیہ کار کے طور پر کام بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنی کتاب “soft power” میں لکھتے ہیں: "اگر کوئی آمر اپنے مخالف کو سزا دینا چاہے اور وہ مخالف اپنے اہداف کے حصول کیلئے شہادت کا طلبگار ہو تو اس کے مقابلے میں طاقت کا استعمال ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہو گی۔” اس بات کی روشنی میں امریکہ کی جانب سے خطے اور دنیا میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے ایسے پیروکاروں کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال جو شہادت کی آرزو رکھتے تھے امریکہ کی ایک بہت بڑی اسٹریٹجک غلطی تھی۔ امریکہ گذشتہ نصف صدی میں اس حقیقت کو جاننے کے باوجود اس غلطی کا شکار ہوا ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ بار بار طاقت کے استعمال اور اس کے نتیجے میں نقصان برداشت کرنے کے باوجود امریکہ اس غلطی کو دہرانے پر مصر دکھائی دیتا ہے۔

اسرائیل نے حال ہی میں شام اور لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے جس کے ردعمل میں حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل آرمی کی ایک بکتر بند گاڑی کو اینٹی ٹینک میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ اس جوابی کاروائی کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان جاری معرکہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بتدریج اس پھندے میں پھنس گئی ہے جس سے دور رہنے کی نصیحت اسے فوجی اور سکیورٹی ماہرین نے کر رکھی تھی۔ جوزف سموئیل نائے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: "اگر کوئی آپ کی جانب بندوق اٹھا کر کہے کہ پیسے دے دو ورنہ مار دوں گا تو آپ کو انتخاب کا حق حاصل ہے۔” وہ اور وائٹ ہاوس کے دیگر عہدیداران کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال کا شکار شخص پیسے دینے پر تیار ہو جائے گا۔ لیکن لبنان اور شام میں بندوق اور حق انتخاب کی اس صورتحال نے امریکہ اور اسرائیل کو شدید مصیبت اور مخمصے میں ڈال دیا ہے اور وہ اس مصیبت سے باہر نکلنے میں بھی ناکام ہو گئے ہیں۔ اس وقت اسرائیل کی حالت ایسے ہی شخص کی مانند ہے جس پر بندوق تانی گئی ہو اور اس سے سوال کیا جائے کہ پیسے چاہئیں یا اپنی جان چاہئے؟

اسرائیل نے حزب اللہ لبنان سے ٹکر لے کر اپنے لئے بہت مشکل صورتحال پیدا کر لی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے خلاف جنگ کا آغاز امریکہ اور اسرائیل دونوں کیلئے ہی بھاری اخراجات کے ہمراہ ہو گی۔ انہیں پیسے دینے کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ ذہین طاقت کے حیرت انگیز نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ اب انہیں ہتھیار پھینکنے پر بھی مجبور ہونا پڑے گا۔ محرم کے مہینے میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی جانب سے اسرائیل کو منہ توڑ جواب کا راز اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ انہوں نے ذہین طاقت کا استعمال امام حسین علیہ السلام سے سیکھا ہے۔ ان کی جانب سے اسرائیلی شرپسندی کے جواب میں اقدامات کے آغاز کیلئے وقت کا انتخاب انتہائی اہم ہے۔ ابھی تو اسرائیل سے انتقامی کاروائی کا آغاز ہوا ہے۔ اسرائیلی حکام نے جوزف نائے کی اس نصیحت پر توجہ نہیں دی کہ شہادت کے طلبگار کے خلاف طاقت کا استعمال بہت بڑی غلطی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کے احمقانہ اقدامات کی بدولت غاصب صہیونی رژیم دلدل میں پھنس چکی ہے۔ خدا کرے کہ حزب اللہ لبنان عاشورہ کے روز اسرائیل پر دوسرا وار کرے۔ شیطانی قوتوں کے خلاف جہاد کا بہترین مہینہ محرم کا مہینہ ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …