ہفتہ , 20 اپریل 2024

افغانستان سے فوجی انخلاء اور اس کا مستقبل

افغان طالبان سے اپنی افواج کے پر امن انخلاء کے لیے سر توڑ کوششیں کرنا امریکہ کے لیے سبکی کا باعث بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا انخلاء اگرچہ دستاویزی طور پر شکست نہیں کہلایا جا سکتا البتہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت اس معاملے میں اپنی فتح کا دعویٰ کرنے کے قابل نہیں رہی۔ سلطنتو ں کا قبرستان کہلائے جانے والے افغانستان میں اٹھارہ برس بر سر پیکار رہنے کے بعد اب امریکہ وہاں سے انخلاء کے لیے مضطرب ہوا جا رہا ہے۔ وہ یہ بات سمجھ چکا ہے کہ یہ جنگ ایک ناقابل فتح جنگ بن چکی ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور طالبان کے مابین یہ نیا دور اس ملک کے لیے امن کا ضامن بن سکے گا جو پچھلی چار دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے؟ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جن طالبان لیڈروں کو امریکہ دہشت گرد گردانتے نہیں تھکتا تھا،بالآخر انہی لیڈروں کے ساتھ ایک سال تک مذاکرات کے لیے امریکی انتظامیہ پر تولتی رہی ہے۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان یہ امن مذاکرات ممکن ہی طالبان رہنما ملا برادر کے ذریعے ہوئے جو طالبان کا دوسرا بڑا لیڈر سمجھاجاتا ہے۔ وقت کیسے پلٹا کھاتا ہے ، اس بات سے اندازہ لگائیے کہ یہ وہی ملا برادر ہے جسے پاکستان نے امریکہ کے کہنے پر نو برس تک پابند سلاسل رکھا تھا۔ ملا برادر کے علاوہ ان مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے والے طالبان رہنماؤں میں چار ایسے لوگ بھی شامل تھے جو گوانتانامو بے میں سزا کاٹ چکے ہیںاور ان پر سے حال ہی میں سفری پابندیاں اُٹھائی گئی ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان اس انخلاء کو اپنی فتح سے تعبیر کرتے ہیں کہ دہائیوں سے ان کا یہی ایک مطالبہ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق افواج کا مکمل انخلاء سولہ مہینوں میں ممکن ہوگا بشرطیکہ افغان طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔ افغان امن عمل کا کٹھن ترین مرحلہ، طالبان اور کابل حکومت کے مابین ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے معاملات کا طے پانا ہوگا۔اب تک کابل حکومت کو امریکہ کی جانب سے اس تمام عمل میں شامل کرنے کے لیے در خور اعتنا نہیں سمجھا گیا اور طالبان کی جانب سے بھی اب تک افغان حکومت کے ساتھ مستقبل کے سیاسی نظام کے حوالے سے کسی قسم کی گفتگو کرنے کی حامی نہیں بھری گئی۔افغان عوام میں پریشان کن طور پر سیاسی عمل کے بحالی کے بعد ایک مرتبہ پھر طالبان راج کے مسلط ہونے کا خوف موجود ہے ۔

اس حوالے سے امن عمل کے سر خیل زلمے خلیل زاد نے افغان راہنماؤں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر طالبان کی جانب سے افغان حکومت یا افواج پر حملہ کیا گیا تو امریکہ افغان افواج کی عسکری امداد کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ طالبان نے اب تک اپنا سیاسی ایجنڈہ واضح کیا ہے اور نہ ہی اب تک یہ طے ہے کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں گے یا نہیں۔اس سب کے بیچ یہ چہ مگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ افغانستان میں موجوداسلامی تحریک ایک تکثیری سیاسی نظام میں کام کرنے کی خواہاں ہے۔ افغان طالبان نے اگرچہ یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کریں گے اور بچیوں کی تعلیم پر بھی کسی قسم کی قد غن نہیں لگائیں گے مگر ان وعدوں نے بھی عوام کے خدشات کو ختم نہیں کیا۔

رواں ماہ کے آخر میں افغانستان کے صدارتی انتخابات ہونا بھی طے ہیں البتہ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کا ان انتخابات میں کیا کردار ہوتا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ یہ انتخابات امن معاہدے کے طے پانے تک ملتوی ہوجائیں البتہ معاہدے کے بعد بھی طالبان کا ان صدارتی انتخابات میں حصہ لینا یقینی نظر نہیں آتا۔ تشویش ناک بات یہ کہ طالبان نے رفتہ رفتہ ملک کے ایک بڑے حصے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور امریکیوں سے مذاکراتی عمل کے دوران بھی انہوں نے عسکری کارروائیاں بند کیں اور نہ ہی جنگ بندی کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ ابھی حال ہی میں زلمے خلیل زاد کی افغان حکومت کو امن عمل کے بارے بریفنگ دینے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی طالبان کا کابل کے ایک انتہائی حساس علاقے میں خودکش بم حملہ کرنا اس کی تازہ مثال ہے۔

امن عمل کو ایک اور خطرہ اسلامی ریاستی گروہ سے بھی ہے جن کی عسکری کارروائیاں کچھ اور ہی پیغام دے رہی ہیں۔ ابھی گزشتہ ماہ افغانستان بھرمیں اپنی جڑیں رکھنے والی دہشت گرد تنظیم نے کابل میں ایک شادی کی تقریب میں خودکش دھماکہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ساٹھ سے زائد لوگ جاں بحق ہو گئے تھے۔ امریکی پر امید ہیں کہ امن معاہدے کے طے پا جانے کے بعد ان متشدد عسکری کارروائیوں میں کمی آجائے گی۔ اس امن عمل کے خطے کی سیاست پر بھی گہرے نتائج مرتب ہوں گے کہ افغانستان ہمیشہ سے ہی اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث عالمی طاقتوں کی مداخلت سے جڑا رہا ہے۔ ابھی اس جنگ سے متاثرہ ملک میں مکمل طور پر امن بحال ہونے میں بہت وقت لگے گا۔ دہائیوں پر محیط جنگ اور تنازعات جن کے نتیجے میں لاکھوں افغان لقمہ اجل بنے، کا فریقین کی رضامندی کے باوجود آسانی سے حل ہونا ممکن نہیں۔ افواج کے مکمل انخلاء کے بھی اپنے اثرات ہوں گے اور یہ بات بھی درست ہے کہ دہائیوں پر محیط جنگ نے اس ملک کو کئی حوالوں سے تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ البتہ اس حقیقت سے منہ موڑنا ممکن نہیں کہ افغانستان میں تمام معاملات کے اختتام کے قریب پہنچنے پر، اپنی عسکری فتوحات اور ملک بھر میں جڑیں پھیلائے نیٹ ورک کی بدولت شورش پسند عسکری قوتیں زیادہ مؤثر اور طاقتور ہو چکی ہیں۔بشکریہ مشرق نیوز

(بشکریہ ڈان، ترجمہ :خزیمہ سلیمان)

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …