ہفتہ , 20 اپریل 2024

چین کے خلاف ٹرمپ کا اعلان جنگ

(تحریر: علی احمدی)

China containment ایسی اصطلاح ہے جو امریکہ کی خارجہ سیاست میں چین کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی ترقی کا مقابلہ کرنے کو ظاہر کرتی ہے۔ البتہ اس سیاست کی تاریخ سابق سوویت یونین کے ساتھ امریکہ کی سرد جنگ کی جانب پلٹتی ہے۔ اس سیاست کے تحت امریکہ ایشیا میں اپنی طاقت اور اثرورسوخ برقرار رکھنے کیلئے چین کو کمزور کرنے پر زور دیتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں امریکہ نے اس مقصد کے حصول کیلئے چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ فوجی، اقتصادی اور سفارتی تعلقات بڑھائے ہیں۔ افغانستان، ازبکستان، تاجکستان اور فلپائن میں فوجی موجودگی اور جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات میں فروغ واشنگٹن کی وہ حکمت عملی ہے جسے براک اوباما کے دور میں "ایشیا کی جانب پلٹنے” کا نام دیا گیا تھا۔ اگرچہ امریکہ اب تک یہ دعوی کرتا آیا ہے کہ وہ چین کو کنٹرول کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں لیکن 2019ء سے امریکی حکومت کے اس موقف میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ اس سال امریکی وزارت خارجہ کی پلاننگ سیکشن کے سربراہ کرون اسکینر نے ایک ایسی تحقیق کی تفصیلات جاری کیں جس میں چین کو کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کئے گئے تھے۔ سننے میں آیا کہ اس تحقیق میں سیموئیل ہنٹنگٹن کی کتاب "تہذیبوں کی جنگ” سے بھی مدد حاصل کی گئی تھی۔

چین اور امریکہ کے درمیان حالیہ تجارتی جنگ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ دعووں کے برعکس امریکی حکام چین کو ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسے کنٹرول کرنے کے درپے ہیں۔ امریکی حکام چین کی تیزی سے بڑھتی ترقی سے خوف زدہ ہیں۔ شاید سابق امریکی صدر براک اوباما اپنے سفارتی مزاج کے باعث چین کے خلاف واضح طور پر اعلان جنگ نہیں کر پائے لیکن موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو ایک تاجر پیشہ شخص ہیں اور وہ سفارتی رکھ رکھاو کے بھی زیادہ قائل نہیں ہیں انتہائی واضح اور بعض اوقات بھونڈے انداز میں اپنے اہداف بیان کر چکے ہیں۔ ان کے بقول ان کا ایک بڑا ہدف ہر ممکنہ طریقے سے چین کو کنٹرول کرنا ہے۔ اگرچہ امریکہ زرد اژدہا کو کنٹرول کرنے اور اگر ممکن ہو نابود کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان ٹکراو دنیا میں نئے نئے اتحاد جنم لینے کا باعث بنا ہے۔ ان میں سے ایک اہم اتحاد روس اور چین کے درمیان ہے۔ چین کے مشرقی سمندر میں دونوں ممالک کی مشترکہ فوجی مشقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ روسی حکام کو امریکہ کے مقابلے میں نیا اتحادی مل چکا ہے۔

اگرچہ چین اور روس کے درمیان فوجی تعاون گذشتہ 40 برس سے جاری ہے لیکن حالیہ چند برسوں میں اس میں بہت ترقی آئی ہے۔ گذشتہ 5 برس کے دوران ماسکو نے چین کو ایس 400 ایئر ڈیفنس سسٹم اور سوخو 35 جنگی طیاروں جیسے جدیدترین ہتھیار فروخت کئے ہیں۔ اسی طرح چین اور روس کے درمیان فوجی تعاون بری فوج سے بڑھ کر نیوی تک پھیل گیا ہے اور نوبت بحیرہ زرد سے قلزم کے ساحل تک نیوی کی مشقوں تک جا پہنچی ہے۔ امریکہ کی سربراہی میں جاپان، بھارت اور آسٹریلیا پر مشتمل چار ملکی اتحاد واشنگٹن کی جانب سے چین کی سرگرمیوں کو مشرقی ایشیا کی جانب پھیلنے سے روکنے کیلئے تشکیل پایا ہے۔ آسٹریلیا کے تحقیقاتی ادارے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے انجام پانے والی ایک سروے رپورٹ میں شرکت کرنے والے 31 فیصد افراد نے اس اتحاد کو مشرقی ایشیائی خطے کیلئے خطرناک قرار دیا ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں خلیج فارس میں ایران کے مقابلے میں بھی ایک اتحاد تشکیل دینے کی کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے۔

چین نے 2013ء میں ون بیلٹ ون روڈ کا پراجیکٹ متعارف کروایا۔ اس پراجیکٹ میں دنیا کے 60 ممالک شریک ہیں۔ اس پراجیکٹ میں شامل کچھ روٹ ایسے بھی ہیں جو ایران کے شمالی علاقوں سے گزرتے ہیں۔ البتہ اس بارے میں کچھ تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض ماہرین چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثرورسوخ سے خائف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں چین اپنے اس بظاہر اقتصادی اثرورسوخ کو فوجی اثرورسوخ بڑھانے کیلئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اسی طرح چین ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کمزور ممالک میں وسیع سرمایہ کاری کر رہا ہے اور انہیں قرضے دے رہا ہے۔ یہ خدشہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر یہ کمزور ممالک قرضے واپس نہ کر سکے تو چین انہیں اپنے سیاسی اثرورسوخ کیلئے بروئے کار لا سکتا ہے۔ بہرحال ایک طرف چین اور روس کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ اور جاپان ایکدوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مسلسل عالمی اور علاقائی معاہدوں سے دستبردار ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکہ اور چین کے درمیان تناو بڑھنے کا خطرہ موجود ہے۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …