منگل , 23 اپریل 2024

میدان کربلا میں حاضری اور معرفت

(تحریر: ارشاد حسین ناصر)

کربلا کے میدان میں اکسٹھ ہجری عاشور کے دن دی جانے والی عظیم قربانیوں میں کیسا اثر ہے کہ ان کی تازگی آج تقریباً چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسی طرح باقی ہے، جیسے یہ آج کا واقعہ ہو۔ محرم کا چاند نظر آتے ہی اس تازگی کا احساس ایسے اجاگر اور نمایاں ہوتا ہے کہ انسان کی سوچ و فکر، قلب و ذہن جہاں مغموم سا ہوتا ہے، وہیں اپنے آس پاس، ارد گرد اور ماحول میں پائے جانے والے کربلائی کرداروں اور یزیدان عصر کے چہرے اور کردار بھی نمایاں ہو کر آن کھڑے ہوتے ہیں۔ کربلا کے میدان میں امام عالی مقام فرزند علی و زہراء نے بھی اس وقت کی دنیائے عالم سے کیسے کیسے ہیرے اور جواہر اکٹھے کر لئے تھے کہ انکا مقابلہ تاریخ (گزری اور آنے والی) کرنے سے قاصر ہے۔ بھلا کون ہے جو ایسا کردار ادا کرسکے، جو امام اور ان کے جاںثاروں نے ادا کئے۔ امام اور ان کے جانثاروں نے ناممکنات کو ممکن بنایا اور ہمیشگی اور ابدیت کے حق دار ٹھہرے۔ انہوں نے ایسی مثال قائم کی کہ بے مثال ہو گئے۔

اسلام نے بعثت سے لیکر آج تک کتنی جنگیں برپا کیں، ان جنگوں میں ان گنت لوگ شہادت سے سرفراز ہوئے، مگر اس مقام و مرتبہ اور ابدیت کے حق دار نہ بن سکے، جو ایک ہی دن میں صبح تا عصر دی جانے والی بہتر قربانیوں کیساتھ امام حسین اور ان کے باوفا، ایثارگران کو حاصل ہوا۔ چودہ صدیاں ہو چلی ہیں، نواسہء رسول و آل رسول کی ان قربانیوں کے ہدف و مقصد کو سمجھاتے ہوئے، بتاتے ہوئے مگر کیسی امت ہے کہ کلمہ نبی کا پڑھتے ہیں اور محبت ان کے جانی دشمنوں سے کرتی ہے۔ اگر اکسٹھ ہجری میں امت حقیقت کو سمجھ جاتی، حالانکہ تب حق تک پہنچنا آسان تھا، وہ لوگ موجود تھے، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے رسول آخر ۖ کو دیکھا تھا اور اپنے کانوں سے ان سے مقام امام حسین کے بارے میں احادیث سن رکھی تھیں۔ دیکھتے تھے کہ رسول خدا اپنے نواسوں سے کس قدر محبت رکھتے ہیں اور کتنا پیار کرتے ہیں، اس کے باوجود کتنے نامور صحابہ اور ان کے ناخلف بچوں نے نواسہ رسول کو بے گناہ، بلا وجہ ناصرف قتل کر دیا بلکہ ان کے اہل خانہ کو اسیر کیا، انہیں درباروں اور بازاروں میں پھرایا، ان پر ظلم کیا، ان کیلئے زمین تنگ کی۔

بہرحال اس ظلم و ستم اور سفاکیت کی داستان کی وجوہات میں سے بہت سے تاریخ نویس اور اہل دانش ان واقعات کو سمجھتے ہیں، جو رسول خدا ۖ کی رحلت جانسوز کے فوری بعد پیش آئے، اگر اس وقت حق دار کو اس کا حق دیا جاتا تو شائد یہ موقعہ کبھی نہ آتا اور امت کے منہ پہ نواسہ رسول کو شہید کرنے کی کالک نہ لگتی۔ ایسی کالک جو چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی صاف نہیں ہوسکی، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح اکسٹھ ہجری میں ایک بدمعاش، شرابی، عیاش، خود کو نمائندہ خدا و جانشین پیغمبر یعنی خلیفہ وقت بن بیٹھا تھا اور بہت سے نامور لوگ اس کی بیعت میں چلے آئے تھے، انہوں نے سرتسلیم خم کر لیا، نہ صرف اپنی گردنیں جھکا لیں بلکہ اس کے ساتھ ناحق گردنیں کاٹنے پر اتر آئے، ایسے ہی آج بھی اسلام کے نام پر یزیدی کھیل کھیلا جا رہا ہے اور حق کا راستہ روکا جا رہا ہے، حق کو مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، حق کو کربلا سجانے کیلئے لشکر بھیجے جا رہے ہیں۔

عاشق حقیقی امام حسین و کربلا امام خمینی (رہ) نے دنیا بھر کی باطل قوتوں کے مقابل قیام کیا اور انہیں شکست فاش دی، لاکھوں قربانیوں کے بعد ان کی رہبری میں جو انقلاب برپا ہوا، وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی شائد نہ ہو، مگر اس الہیٰ انسان کو اپنی جدوجہد اور اس کے نتیجے پر یقین تھا، لہذا انہوں نے انبیاء و آئمہ کی قربانیوں کا حاصل و نتیجہ انقلاب اسلامی کی عظیم کامیابی کی شکل میں پایا۔ امام خمینی نے برملا اعتراف کیا کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ کربلا کی بدولت ہے، یہ انقلاب، انقلاب کربلا کا پرتو ہی تھا۔ امام خمینی کی رحلت کے بعد اس کے علمبردار امام خامنہ ای ہیں، گذشتہ تیس برس سے دنیا بھر کے یزید اور اس کے حامی و سرپرست اس فرزند علی و زہراء کو شکست دینے کیلئے ہر حربہ آزما چکے ہیں، مگر جن کیساتھ خدا ہوتا ہے بلکہ جو خدا کے ہوتے ہیں، خدا بھی ان کا مددگار و سرپرست ہوتا ہے، اس کا لطف و کرم ان کے شامل حال ہو جاتا ہے۔

قائد شہید کا ایک فرمان اکثر سامنے رہتا ہے، فرماتے ہیں کہ "امام خمینی کے ذریعے دنیا پر حق کی حجت اتمام ہوچکی ہے، میں آمادہ ہوں کہ اپنی جان، مال اور اولاد ان پر قربان کروں۔” شہید قائد ولایت فقیہ کے اس قدر پیرو اور کاربند تھے کہ ان کے نزدیک اس سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنا ممکن نہ تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) نے شہید قائد کی شہادت پر جو تحریری پیغام نشر کیا، اس میں شہید کو فرزند راستین سید الشہداء کہا۔ یہ کوئی روایتی یا تکلفاتی بات نہیں، نہ ہی امام خمینی اس طرح کے تھے، یہ پہچان اور معرفت کی بات ہے، شہید قائد امام خمینی کی معرفت کا جو پیمانہ رکھتے تھے، انہوں نے اسی کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا اور امام خمینی (رہ) شہید قائد کو جس قدر پہچانتے اور جانتے تھے، ان کے مقام و مرتبہ سے آگاہ تھے، اسی انداز میں ان کے بارے میں فرمایا، یعنی بات وہی ہے معرفت کی، کون کتنی معرفت رکھتا ہے۔

سید الشہداء کیساتھ جو لوگ میدان کربلا میں شب عاشور یہ کہہ رہے تھے ہم ہزار بار بھی قتل کئے جائیں اور پھر زندہ کئے جائیں تو آپ کیساتھ ہی مرنا پسند کریں گے، یہ ان کی معرفت تھی، ان کے ایمان کی پختگی تھی اور ایک طرف وہ لوگ تھے، جو سید الشہداء کے سامنے میدان میں آن کھڑے ہوئے تو امام نے انہیں باقاعدہ اپنی پہچان کروائی کہ میں کون ہوں، مجھے پہچان لو بلکہ بعض لوگوں کا تو نام لیکر کہا کہ تمہارے سامنے رسول اللہ ۖ نے میرے بارے یہ نہیں کہا تھا۔ ان کا ایمان دولت، طاقت، جہالت، اختیار اور لالچ نے پلٹ دیا تھا، یہ لوگ جانتے بوجھتے اور پہچانتے ہوئے بھی سید الشہداء کے قتل پہ در پے تھے۔ یہ لوگ جانتے تھے کہ حق کس طرف ہے، مگر ان کی دل و دماغ اور عقل و فہم پر جو پردے پڑ چکے تھے، انہیں ہٹانا ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ کائنات کے بدترین مخلوق بن چکے تھے اور دوسری طرف اس وقت کربلا کی زمین پر امام حسین اور ان کے جانثار کائنات کے سب سے برترین لوگ تھے، جو معرفت حق کیلئے اپنی جانیں ہتھیلی پہ رکھ کے کھڑے تھے۔

ان کو انتطار تھا کہ کب ان کا خون سید الشہداء کی حمایت میں بہتا ہے اور وہ حق کا دیدار حاصل کرتے ہیں، وقت کیساتھ ساتھ ان کی بے تابی و بے قراری میں اضافہ ہو رہا تھا اور جیسے جیسے ان کی عظیم قربانیوں کا وقت آیا، ان لوگوں نے تاریخی انداز میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ہم آج بھی ان کی وفا، ایثار اور عظیم قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے کاش ہم بھی کربلا میں ہوتے اور سید الشہداء کیساتھ ان کی معیت میں جہاد کرتے ہوئے مارے جاتے۔ ہاں یہ ہماری خواہش ہے، جس کا اظہار ہم زیارت امام حسین میں بھی کرتے ہیں، مگر روایتی انداز میں۔ شائد بغیر معرفت اور اس کی گہرائی کو سمجھے یا لیتنی کے جملے ادا کرتے ہیں، ورنہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج ہمارے سامنے کربلا موجود ہے، کیا یمن کربلا نہیں ہے، جہاں وقت کے یزید اپنی یزیدیت کا روز اظہار کرتے ہیں، کیا ہمارے سامنے عراق و شام کربلا نہیں بنائے گئے، جہاں ہمارے ان آئمہ کے روضوں کو گرانے کیلئے یزیدیوں نے سر توڑ کوششیں کیں۔

کیا بی بی سیدہ زینب سلام کے روضے پر برسائے گئے بموں کی گونج ہم تک نہیں پہنچی، ہم نے کیا اثر لیا؟ ہم میدان میں اترے؟ ہم اپنا سب کچھ چھوڑنے پر تیار ہوئے؟ جو لوگ اس حوالے سے میدان میں اترے، وہی کربلائی ہیں، ہم دیکھتے رہ گئے، ہم سوچتے رہ گئے، ہم گو مگو میں رہ گئے اور ہم میں سے ہی بہت سے وقت کی کربلا میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے پہنچ گئے اور آج وہ "بھشت معصومہ” کے مکین بنے ہوئے ہیں۔ دوستان، برادران و خواہران، ایام عاشور میں بس اتنا ہی کہنا ہے کہ اپنی معرفت کے پیمانے کو تولیں، اس میں کیا کمی ہے، کربلا کے کرداروں کو پڑھیں، پہچانیں اور اپنے آپ کو کسی ایک کربلائی کردار میں ڈھالنے کا عہد اور عزم مصمم کریں۔ ایام عزا میں یقیناً دل مغموم ہیں، مگر تنہائی کے عالم میں ایک بار اپنی آنکھوں کو بند کرکے کربلا میں لے کر جائیں اور اپنے کردار کا تعین کریں، شائد کچھ واضح ہوسکے۔ شائد کچھ روشن ہوسکے، شائد کچھ تبدیل ہوسکے، شائد کربلا کی پکار سنائی دے اور لبیک یاحسین کا شعار بلند کرتے ہوئے میدان میں جا پہنچیں اور حقیقی کربلائی کا درجہ پا سکیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …