بدھ , 24 اپریل 2024

آسام: قومی شناخت سے محروم انڈین شہری اب کدھر جائیں؟

(پریانکا دوبے)

45 سالہ عبدالحلیم مجمدار ہاتھ میں ایک کاغذ تھامے پریشان کھڑے ہیں۔ ان کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ آسام میں بسنے والوں کی قومی شناخت سے متعلق جاری ہونے والی نئی فہرست میں سے ان کے خاندان کے پانچ میں سے چار افراد کے نام نکال دیے گئے ہیں۔صدمے اور خوف کا شکار عبدالحلیم کی کیفیت دیکھتے ہوئے چند مقامی افراد ان کے گرد اکھٹے ہو جاتے ہیں، یہ تمام افراد آسام کے ضلع کامروپ کے ٹکدا پاڈا گاؤں میں واقع این آر سی سینٹر کے سامنے موجود ہیں۔

گذشتہ رات سے صدمے سے دوچار عبدالحلیم جب اپنی اس مشکل کے متعلق بات کرتے ہیں تو ذہنی دباؤ کے باعث ان کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘میری اہلیہ کے علاوہ میرے خاندان کے تمام افراد کے نام دسمبر 2017 اور جولائی 2018 میں شائع ہونے والی فہرستوں میں شامل تھے۔ میری اہلیہ کی شہریت سے متعلق حکام نے صرف ایک اعتراض اٹھایا تھا جس کو دور کرنے کے لیے ہم نے تمام ضروری دستاویزات جمع کروا دی تھیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنی اور اپنے بچوں کی شہریت سے زیادہ اپنی اہلیہ کے لیے پریشان تھا تاہم اب جبکہ مجھے میرے گھر کے چار افراد کی شہریت کی منسوخی کا لیٹر تھما دیا گیا ہے تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔‘این آر سی فہرست انڈیا کی ریاست آسام میں سنیچر کی صبح دس بجے شائع کی گئی تھی۔ درخواست دہندہ اپنے اپنے قریبی این آر سی سینٹرز پر یہ جاننے کے لیے جمع ہوئے تھ کہ آیا ان کا نام قومی شناختی فہرست میں شامل ہو چکا ہے یا نہیں۔

اسی طرح کے ایک درخواست گزار 60 سالہ محمد خادم علی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ان کے خاندان کے تمام چھ افراد کے نام قومی شہری فہرست میں شامل تھے۔ بی بی سی کو این آر سی کی حتمی فہرست دکھاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’طویل عرصے کے بعد اب میں سکھ کا سانس لینے کے قابل ہوا ہوں۔‘

لیکن خادم علی کی طرح ہر کوئی خوش قسمت نہیں ہے۔ این آر سی کی حتمی فہرست میں سے 19 لاکھ شہریوں کے نام نکال دیے گئے ہیں۔ایسے ہی ایک شہری 20 برس کے معین الحق ہیں۔ٹکدا پاڈا کے این آر سی سینٹر کے باہرشدید پریشانی میں اپنا پسینہ اور آنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاندان کے تمام چھ افراد کو حتمی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔

وہ اس بات سے لاعلم ہے کہ فہرست سے ان کا نام نکالے جانے کے فیصلے کو وہ 120 دن کے اندر خصوصی ٹرائبیونل میں چیلنج کر سکتے ہیں۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹی کی طرف سے فہرست سے نام نکالے جانے والوں کے لیے قانونی معاونت کی پیشکش بھی کی گئی ہے۔

معین کے ساتھ کھڑے انصر علی بھی پریشان ہیں کیونکہ ان کی اہلیہ کا نام بھی حتمی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ انصر کو بھی کچھ معلوم نہیں کہ وہ کدھر جائیں اور کیا کریں۔ جب بی بی سی نے انصر سے ٹرائبیونل تک رسائی کے دستیاب مواقع سے متعلق بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹرائبیونل کے متعلق انھوں نے بھی سنا ہے مگر اس تک رسائی کیسے کی جائے یہ انھیں معلوم نہیں تھا۔

یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ فہرست سے جن شہریوں کے نام نکال دیے گئے ان کی مدد کے لیے حکومتی اعلانات اب تک عوام تک پہنچ ہی نہیں سکے ہیں۔ اپنے نام کو دوبارہ فہرست میں شامل کرنے سے متعلق ٹرائبیونل تک رسائی کے عمل سے ناواقفیت اس بات کا غماز ہے۔

آسام میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے اور یہ اعلانات بھی کیے جا رہے ہیں کہ عوام ’فیک نیوز‘ اور کسی قسم کی افوہ پر کان نہ دھریں۔ ابھی تک ریاست آسام میں تشدد کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔

ریاست کے پولیس چیف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پولیس سوشل میڈیا پر جاری سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھے گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘وہ افراد جو سوشل میڈیا کے ذریعے افواہیں، نفرت انگیز اور نسل پرستانہ پھیلا رہے ہیں ان کو نہیں چھوڑا جائے گا۔’

آسام کی وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق جن افراد کا نام فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے انھیں ’غیر ملکی‘ نہیں سمجھا جائے گا اور ان کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جائے گا جب تک ٹرائبیونل ان کی اپیل مسترد نہیں کر دیتا۔

ایسے افراد جن کا نام فہرست میں نہیں آیا ان کے پاس ٹرائبیونل میں اپیل کرنے کا وقت 60 دن سے بڑھا کر 120 دن کر دیا گیا ہے۔ ٹرائبیونل سے اپیل مسترد ہونے کے بعد متاثرہ افراد انڈین عدالتوں سے رجوع بھی کر سکیں گے۔لیکن عبدالحلیم کی طرح کے افراد کے لیے شہریت کی منسوخی بہت معنی خیز ہے۔

عبدالحلیم کے چہرے پرصدمے کے آثار نمایاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں آسام میں پیدا ہوا ہوں۔ میرے والد بھی یہیں پیدا ہوئے جبکہ میرے بچے بھی۔ ہم نے یہاں اپنی زندگیاں گزار دی ہیں۔ میں ایک بینک میں ملازمت کرتا ہوں اور میرے بچے بھی تعلیم یافتہ ہیں۔ انھیں اپنی ملازمت اور مستقبل کے بارے میں پریشان ہونا چاہیے مگر اب اس کے بجائے وہ ایک طویل قانونی جنگ کے لیے تیار ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگرچہ مجھے صدمہ پہنچا ہے لیکن میں مکمل ناامید نہیں ہوا ہوں۔ ہم خصوصی ٹرائبیونل جائیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے نام شامل کرلیے جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ادھر کے ہی ہیں اور اس کے علاوہ اور ہم جائیں بھی تو جائیں کہاں؟بشکریہ بی بی سی

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …