ہفتہ , 20 اپریل 2024

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

(شین شوکت)

آپ نے اچھا نہیں کیا میرے نانا جی کی شان اقدس میں جملہ معترضہ ارشاد فرماکر۔ اگر میں آپ کے جد محترم کی شان میں فقرہ گسترانہ استعمال کروں تو پھر آپ نے برا نہیں منانا۔ ارے تم کرکے تو دیکھو میرے جد امجد کی شان میں گستاخی میں تمہارے دادا بزرگوار کے دادا بزرگوار تک کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوجاؤں گا۔ توپتہ ہے پھر میں کیا کروں گا۔ معلوم ہے، جانتا ہوں کہ آپ کیا کرو گے ، وہی کرو گے نا جو تمہیں زیب نہیںدیتا۔ اچھا تو اب تم آپ سے تمہیں کہنے پر اتر آئے۔ اچھا نہیں کیا تم نے۔ اچھا تو تم مجھے تم تم کہتے پھرو اور میں تم کو تم کی بجائے آپ کہوں۔ ارے نہیں ہوگا یہ مجھ سے۔ میں کہتا رہوں گا تمہیں تم تم تم۔ تم ہوگے تم۔ تم تم تم۔ تو صاحبو یہ ہے تو تکار کا بڑا نستعلیق اور مہذب انداز جو آج کل جنس نایاب بن کر عنقاء ہوچکا ہے ۔ ہم نے لڑائی جھگڑے اور مار کٹائی کا ایسا انداز بھی دیکھا ہے جس میں مار کھانے والا کہتا رہتا ہے کہ’’ اب کے تو مار کے دیکھ میں تیرا وہ حشر کروں گا کہ تجھے نانی جی کا گھر یاد آجائے گا‘‘۔ اس کی اس دھمکی آمیز بات کے جواب میں اس کی چھترول کرنے والا اسے پھینٹی در پھینٹی مارے چلا جاتا ہے اور وہ ہر پھینٹی کھانے کے بعد وہی ایک جملہ دہراتا رہتا ہے کہ’’ اب کے تو مجھے مار کے دیکھ میں تیرا کیا حشر کرتا ہوں‘‘۔ ارے اگر تونے مارنے والے کا کوئی حشر کرنا ہوتا تو تو پہلی اینٹ ہی کے جواب میں پتھر مار دیتا۔

وہ زمانہ لدھ گیا جب اینٹ کے جواب میں پتھر مارا کرتے تھے۔ ہم بڑی خوفناک اور خون آلود لڑائی سمجھتے تھے جس میں ہاکیاں اور ڈانگ ڈنڈے چلنے لگتے تھے۔ چاکو چھریوں کی لڑائی بھی کم تباہ کن نہیں تھی جو ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھی ہے۔ ہم اپنی زندگی کے ماہ و سال طے کرتے ہوئے آتشیں اسلحہ کی نمائش کے دور میں ریوالور یا پستول کی حدود سے گزرنے کے بعد مشین گنز اور کلاشن کوف کا عہد گزارنے لگے۔ یوں لگتا ہے جیسے ایک انسان دوسرے انسان کو مارنے کے لئے اس دنیا میں آیا ہو۔ لیکن وہ ایسی حرکت صرف اس وقت کرتا ہے جب وہ انسان کہلانے کے قابل نہیں رہتا۔ ایکدم سے درندہ بن جاتا ہے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے یا کسی قاعدے قانون کو خاطر ہی میں نہیں لاتا ایسی صورت میں نہ صرف وہ جانگلی درندہ یا وحشی بن جاتا ہے بلکہ اس کے ارد گرد کا سارے ماحول میں جنگل کا قانون در آتا ہے۔ جنگل کے قانون میں زور آور اپنے سے کمزور کو کچا چبا دکھانے کی دھونس دھمکیوں کے علاوہ کر بھی ڈالتا ہے وہ سب کچھ جو وہ کر سکتا ہے ، جس کسی ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہوتا ہے وہاں کمزور کو پنجہ آزمائی سے نہ صرف زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ اسے غلامی کی زنجیریں پہنا کر اس پر حکمرانی بھی کی جاتی ہے ، اور وہ لوگ جو بے بس ہوتے ہیں غلام ی کی زنجیریں پہن کر

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

کی روش اپنانے پر مجبو ر ہوجاتے ہیں ۔ آج کل یہی عالم بھارت سرکار کا ہے جس میں ہندو شدت پسندوں نے اقتدار پر شب خون مارنے کے بعد دیگر مذاہب کے لوگوں کا جینا عذاب کردیا ہے۔

ہندو بنئے کو ایسا کرنے کی جرات اس لئے ہوئی کہ اقتدار کی لاٹھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ وہ ہندوستان میں انتہا پسند ہندوئوں کا راج چاہتا ہے جبھی اس نے پاکستان کی شہ رگ کشمیر پرہاتھ رکھ کر مظلوم کشمیریوں کے حقوق کو صلب کئے رکھا، اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو کے مصداق کم وبیش 72برس گزرنے کے باوجود عالمی منصفوں کا یہ وعدہ وفا نہ ہوا، اس دوران کشمیری آزادی آزادی کے نعرے لگاتے رہے ، آس تھی کہ کشمیریوں کا لے کر رہیں آزادی کی باز گشت انسانی حقوق کے علم بر داروں کے در احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی ، لیکن اس کے برعکس یوں ہواں کہ کشمیر جنت نظیر کو جہنم میں تبدیل کرنے والے جانگلیوں درندوں اور وحشیوں نے آزادی کے متوالے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی نا قابل برداشت حرکت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا کر انسانی حقوق کے دعوے داروں کے منہ پر ایسا دھپڑ رسید کیا ہے کہ اس کی انگلیوں کے نشان تک ثبت ہو گئے ہیں اس کے رخساروں پر اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ عالمی انصاف کی دکان سجانے والوں کو ہندوستان کے مذہبی شدت پسندوں کا یہ زور دار دھپڑ یا تمانچہ کھا کر اتنا بھی کہنے کی جرت نہیں ہو رہی کہ اب کے تو مجھے مار کے دیکھ میں تمہارا وہ حشر نہ کردوں کہ تجھے نانی جی کا گھر یاد آجائے تو پھر کہنا۔ مگر اس سے ایسا کہنے یا اس قسم کے کسی رد عمل کے اظہار کی توقع بھی کیسے کی جاسکتی ہے کہ انکل سام اپنے بوتھے پر ڈونلڈ ٹرمپ کا ماسک سجائے مودی بہ یک نکتہ موذی کے ہاتھ میں ہاتھ دے بیٹھا ہے اور طاغوتی قہقہے لگانے والا مودی اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کرہ ارض کی ہر قوم کو کہہ رہا ہے کہ

روک سکو تو روک لو
تبدیلی آئی رے

تبدیلی سرکار کا نعرہ اڑا لے گیا مودی اورکسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوسکی ، جنگ چاہے نستعلیق نوعیت کی ہو یا اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والی سر پھٹول نوعیت ، جنگ جنگ ہے اور جنگ تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ، شائد یہ وجہ ہے کہ آج پاکستانی قیادت بھارت سے کرفیو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہنے لگی ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے کہ

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

(بشکریہ مشرق نیوز)

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …