بدھ , 24 اپریل 2024

کشمیر ایک اضافت

(ظہیر اختر بیدری)

کشمیر کے حوالے سے پاکستان میں جو احتجاجی پروگرام بنتے ہیں31 اگست کو اسی سلسلے کا ایک ملک گیر پروگرام کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے نام سے منایا گیا۔ بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ ظلم کا جو سلسلہ دراز کر رکھا ہے ،اس کے خلاف پاکستان میں مسلسل احتجاج کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

31 اگست کو منائے جانے والے یکجہتی پروگرام کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس سے قبل اتنے وسیع پیمانے پرکوئی یکجہتی پروگرام نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کی تاریخی کشیدگی اور جنگوں سے عبارت ہے دنیا کے مہذب انسان نے خود طے کیا تھا کہ حق خود ارادیت انسان کا بنیادی حق ہے۔کشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے اورکشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے۔

ہماری دنیا اور دنیا کے مسائل حل کرنے والی اقوام متحدہ نے اس مسئلے کے حل کے لیے رائے شماری کی تجویز پیش کی تھی۔ اقوام متحدہ ایک بے اختیار ادارہ ہے اس کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ادارہ عالمی مسائل کے حل کے حوالے سے فیصلے تو کرتا ہے لیکن اس کے پاس اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے نہ کوئی میکنزم ہے نہ طاقت ہے۔
یہ ادارہ تقسیم کے بعد سے ایک مردہ گھوڑا بنا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تقسیم کی تاریخ کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر رُلتا آرہا ہے جو کچھ ہو رہا ہے وہ احتجاج ہے، مذمت ہے اور احتجاج اور مذمت سے عالمی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اور الجھتے چلے جاتے ہیں، اور کشمیر کے حوالے سے یہی ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کو اگرچہ جمہوری کہا جاتا ہے لیکن دنیا کے مسائل طاقت کی برتری سے حل ہوتے یا پینڈنگ ہوتے رہے ہیں۔ اگر دنیا میں جمہوریت اور انصاف کا چلن ہوتا تو مسئلہ کشمیر کب کا حل ہوچکا ہوتا چونکہ جمہوریت کے اس ترقی پسندانہ دور میں انصاف اور اکثریت ناپید ہیں ، لہٰذا کشمیر جیسے کئی مسئلے تاریخ کے چہرے پر کوڑھ کے داغ بنے ہوئے ہیں۔

اصل میں آج کی دنیا میں انصاف اور ناانصافی کا تعلق بڑی طاقتوں کے مفادات سے ہے ، اگرکسی مسئلے کا حل بڑی طاقتوں کے مفادات کے لیے ضروری ہے تو پھر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اتنی تیزی سے فعال ہوجاتے ہیں کہ مسئلے کا حل بغیر تساہل کے فوری دریافت کرلیا جاتا ہے اگر مسئلے کا حل بڑی طاقتوں کے مفادات میں نہیں تو پھر ایسے مسئلے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین بنے رہتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ الجھے ہوئے قومی اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں دانشور اور مفکر اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن جس دنیا میں ہر چیز طاقت کے بل پر زندہ رہتی ہے یا مرجاتی ہے ایسے معاشرے ایسی دنیا میں حق اور انصاف کی بات کرنا یا تو پاگل پن کی علامت ہے یا حماقت کی علامت ہے یہ دنیا نیچے سے اوپر تک مفادات کی دنیا ہے اور مفادات کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام سے ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر سر کھپانے والوں کی نظر میں دونوں ملکوں کے بجٹ میں رکھے جانے والے دفاعی اخراجات بہت کم ہی آتے ہیں۔ بھارت پاکستان کے مقابلے زیادہ آزاد خیال ملک کہلاتا ہے اس آزاد خیال ملک کے غلام خیال دانشوروں کے ذہن میں یہ سوال نہیں آتا کہ اس دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں ہندوستان اور پاکستان کے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ، اس کی ایک بڑی وجہ دفاع پر خرچ کیے جانے والے وہ اربوں روپے ہیں جو غریبوں کے خون پسینے سے تشکیل پاتے ہیں اور انھی کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔

کشمیر کے مسئلے کو اہل علم حق خود ارادی کا مسئلہ بتاتے ہیں یہ ایک دور جدید کا فراڈ ہے۔طاقت کے سماج میں حق خود ارادی جیسے چٹکلے محض ذہنی عیاشی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر جتنا پرانا مسئلہ ہے اور وہ بھی بڑی طاقتوں کے مفادات کی چکی میں پس رہا ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکارکیا جاسکتا ہے کہ ان دونوں متنازعہ علاقوں میں مسلم اکثریت ہے؟ بڑے ملکوں کی نظر میں ان کے مفادات ہوتے ہیں اور بس۔ اگر کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں کا حل کسی حوالے سے بڑی طاقتوں کے مفادات سے جڑ جاتا ہے تو ہندو مسلمان ہندوستان پاکستان کی تفریق ضمنی بات ہوکر رہ جاتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کی نظر میں ہندوستان ، پاکستان سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے، اگر کوئی بات اہمیت رکھتی ہے تو وہ ہے ان کے مفادات۔ اس حقیقت کی روشنی میں ہندو مسئلہ مسلمان مسئلے وغیرہ کی تاویلیں صرف عوام کی تسلی کے لیے ہیں ، ورنہ سرمایہ تو ایک اندھا بہرہ جن ہے جو صرف اضافے کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہندو، مسلمان، ہندوستان، پاکستان ایک اضافتی تاویل کے علاوہ کچھ نہیں۔

آج جب میں ٹی وی اسکرین پر چھوٹے چھوٹے بچوں اسکولوں کے طالب علموں کو بھارت مردہ باد ، کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے دیکھ رہا تھا تو برصغیر کا مستقبل میری آنکھوں میں آنسوؤں کی طرح لرز رہا تھا۔ بھارت مردہ باد ، کشمیر بنے گا پاکستان وغیرہ جیسے نعرے کم عمر کے بچوں کے سادہ سلیٹ جیسے ذہنوں میں نفرتوں کے وہ انگارے ہیں جو برصغیر کے مستقبل کو جھلسا رہے ہیں۔ کہاں ہیں وہ انسانیت کے علم بردار جو دنیا میں ایک سیکولر معاشرے کی تشکیل کے خواب بسائے بیٹھے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کے سامنے صرف اور صرف سرمایہ ہے اور اس میں اضافے کے جتن ہیں۔ باقی ساری چیزیں اضافی ہیں اور ہم 72 سال سے صرف اضافتوں کے پیروکار بنے ہوئے ہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …