جمعہ , 19 اپریل 2024

افغان سویلین ہلاکتیں: کیا حکومتی فورسز بری الذمہ ہیں؟

(محمد حسین ہنرمل)

افغان قضیے کے بارے میں پچھلے چند سالوں سے میں مسلسل لکھتا رہا ہوں۔ اس قابلِ رحم ملک میں امن میرا دیرینہ خواب اور وہاں پر خوشحالی ہر وقت میری تمنا رہی ہے یوں اس بارے میں لکھنا میں اپنا دینی، انسانی اور اخلاقی فریضہ سمجھتاہوں۔ میرے مضامین گواہ ہیں کہ اس موضوع پر میں نے جب بھی قلم اٹھایا ہے تو امریکہ اور طالبان عسکریت پسندوں کو زیادہ ذمہ دارٹھہرایا ہے۔

میرا ہر وقت یہ اصرار رہا ہے کہ افغان طالبان اس جنگ میں بے گناہ افغانوں کو مزید قربانی کے بکرے بنانے کے بجائے خود اَنا کی قربانی دے کر بین الافغان مذاکرات میں حصہ لیں اور اس جنگ کے خاتمے میں کردار ادا کریں۔ طالبان کو اس جنگ کے اصل ذمے دار قرار دینے اور ان سے مسلسل امن، امن اور امن کا التماس کرنے پر شاید اُن کے چند بہی خواہ مجھ سے ناراض بھی ہوں گے اور مجھ پر برہم بھی۔ اپنی تحریروں میں طالبان پر زیادہ غصہ اس لیے بھی نکالتاہوں کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ان کی کارروائیوں میں سویلین ہلاکتیں زیادہ اور مخالف سائیڈ سے بہت کم ہوتی ہیں۔

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس جنگ میں صرف بیرونی افواج اور افغان طالبان سویلین ہلاکتوں کے مرتکب ہورہے ہیں یا افغان سیکیورٹی فورسز کا بھی ان ہلاکتوں میں حصہ ہے؟ مجھے اس سوال کا جواب ہاں میں مل رہا ہے کیونکہ مستند ذرائع اور قرائن نے اب اس بات کی قلعی کھول دی ہے کہ افغان سیکیورٹی اہلکار بھی بے گناہ افغانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی کرنے کی آڑ میں جس طرح طالبان اور نیٹو افواج سویلینز کی جانیں لینے سے صرفِ نظر نہیں کرتے اسی طرح افغان سیکیورٹی افواج بھی اتنی ہی رحمی کے ساتھ بے گناہ افغانوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔

چند دن پہلے کی بات ہے کہ زیرو ٹو قطعہ کے نام سے افغان سیکیورٹی فورس کے ایک دستے نے جلال آباد کے علاقے مجبورآبادمیں ایک گھر پر چھاپہ مارا اور بیک وقت چار بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اگرچہ سیکیورٹی فورسز کے علامیے میں ہلاک ہونے والے بھائی ملک دشمن بتائے گئے ہیں تاہم حقیقت کچھ اور تھی۔ وہاں کے لوگوں کی گواہی کے علاوہ جلال آباد کے اولسی جرگے کے سربراہ عبدالہادی مسلم یار نے بھی یہ گواہی دی کہ افغان سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں شہید ہونے والے چاروں بھائی (قاضی عبدالقادر، عبدالصبور، جہانزیب اور بہادر ) بڑے نیک سیرت، محبِ وطن اور امن پسند افغان تھے۔

مسلم یار کے مطابق اس کارروائی میں ہلاک ہونے والوں میں ایک بھائی قاضی عبدالقادر صدیق ان کے ساتھ جرگے کے مشیر بھی تھے۔ سیکیورٹی فورسز کی اس ظالمانہ کارروائی کے نتیجے میں شہید ہونے والے ان چار بھائیوں کی میتیں بعد میں مشتعل لوگوں نے ننگرہار کے ضلعی ادارے کے سامنے بطور احتجاج رکھ کر قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکرنے کا مطالبہ کیاہے۔ مظاہرین نے تو یہاں تک گواہی دے دی کہ شہیدہونے والے چاروں بھائی نہ صرف پرو حکومت تھے بلکہ اس حکومت میں سرکاری عہدے بھی رکھتے تھے۔

مظاہرین میں اولسی جرگے کے ایک نمائندے عبدلراؤف شپون کاکہنا تھا کہ ”انہیں بھی یاتو ان بے گناہ بھائیوں کے پہلو میں دفنایاجائے گا یا پھر وہ شہداء کے ورثاء کو انصاف ملنے تک مقدمہ لڑیں گے ۔“ افغان سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں عام سویلینز کی ہلاکتوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں کہ اسے نظرانداز کیاجائے بلکہ اس سے پہلے بھی یہ اہلکار عام افغان گھرانوں کو لاشوں کا تحفہ دے چکے ہیں۔ پچھلے ماہ صوبہ پکتیا کے علاقے زرمت میں بھی ملی اردو کے مخصوص دستوں نے ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران گیارہ سول افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیاتھا، جس کے رد عمل میں بھی مظاہرین اور مقتولین کے ورثاء اپنے پیاروں کے جنازے گردیزمیں احتجاج کے لئے گردیزشہر لائے تھے۔

سیکیورٹی فورسز نے اس دفعہ بھی ان لوگوں کو طالبان کے لوگ قرار دے کر جان چھڑائی تھی لیکن وہاں کے لوگوں نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا تھاکہ ”شہید ہونے والے تمام افراد طالبعلم اور اساتذہ تھے جو عید کی تعطیلات گزارنے کے لئے اپنے گھر آئے تھے۔“ اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشن اسسٹنٹ مشن اِن افغانستان (UNAMA) نے افغانستان میں رواں سال یکم جنوری تا اکتیس مارچ کے دوران پیش آنے والے سویلین حادثات ( Casualties) کی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس جنگ زدہ ملک میں رواں سال کے ابتدائی تین مہینوں کے دوران کل سترہ سوتہتر سویلین افراد نشانہ بنے ہیں جن میں پانچ سو اکیاسی افراد ہلاک اور گیارہ سو بیانوے افراد زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ نشانہ بننے والے ان سترہ سوتہتر افراد میں سے پانچ سوبیاسی بچے نشانہ بنے ہیں جن میں ایک سوپچاس بچے ہلاک اور چارسو بتیس زخمی ہوئے ہیں۔ یوناما UNAMA کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ان تین ماہ کے دوران صرف افغان سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں تین سوپانچ سول لوگ ہلاک اور تین سو تین زخمی ہوئے ہیں۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ پچھلے سال 2018 کے ابتدائی تین ماہ کے مقابلے میں رواں سال ( 2019 ) میں افغان سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں سویلین ہلاکتوں کی تعداد میں انتالیس فیصد اضافہ ہواہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ افغان عوام اب نہ صرف طالبان کو بد دعائیں دیتی ہیں بلکہ عام افغان اب سیکیورٹی فورسز سے بھی مایوس ہوچکے ہیں جو ان کے تحفظ کے نام پر ان کی جانیں لے رہی ہیں۔ افسوس کامقام ملاحظہ کیجیے کہ اس وقت افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی تعداد محض چودہ ہزار رہ گئی ہے جنہیں مکمل طور پر سیکیورٹی حاصل ہے، لیکن اس سرزمین کے کلمہ گو افغان ایک دوسرے کی لاشیں گرا رہے ہیں۔

کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ افغان سر زمین کے یہ دو اسٹیک ہولڈرز (افغان حکومت اور افغان طالبان) جامع اور شفاف مذاکرات کے ذریعے ایک دوسرے کو تسلیم کرکے مشترکہ سیٹ اپ تشکیل دیں اور غیروں کی جنگ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیں۔بشکریہ ہم سب نیوز

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …