ہفتہ , 20 اپریل 2024

ہماری دُعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں

(محمود شام)

’’بچو! یاد رکھو۔ 1971میں تم کمزور تھے تو تم سوچتے تھے کہ ہمارے ملک کا ایک حصّہ یہاں اور دوسرا ہزار میل دور تھا۔ بیچ میں دشمن تھا۔ ہم کیسے وطن کا دفاع کرتے۔ دیکھو اگر تم مضبوط ہوتے انڈیا یہ سوچتا بھئی میں کیا کرتا۔ اِدھر بھی پاکستان تھا۔ اُدھر بھی پاکستان تھا۔ میں کیسے دفاع کرتا‘‘۔

یہ الفاظ ہیں جناب پروفیسر کرار حسین کے اور بھیجے ہیں بلوچستان کے سابق سیکرٹری ثقافت و آثار قدیمہ ایوب بلوچ نے، اس فخر کے ساتھ کہ ان کے محترم و مکرّم استاد پروفیسر کرار حسین اس طرح دلیل کے ساتھ بات سمجھایا کرتے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر پاکستان اقتصادی اور دفاعی طور پر مضبوط ہوتا تو کشمیر بھی پاکستان کی جھولی میں اس طرح آگرتا۔ جیسے ہانگ کانگ جمہوریۂ چین کے دامن میں آگرا۔

کبھی ہم نے سوچا کہ جو ہم 72سال سے کشمیر کی آزادی کے لئے دُعائیں کر رہے ہیں وہ بارگاہِ الٰہی میں مستجاب کیوں نہیں ہو رہیں۔ کیا ہماری نیتیں درست ہیں؟ کیا یہ دُعائیں واقعی دل کی گہرائی سے نکل رہی تھیں؟ اب مودی کے ظالمانہ اقدام کے بعد ہم جو کچھ کر رہے ہیں، جلسے، جلوس، ریلیاں، کیا اس سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ کیا اس سے عالمی رائے عامہ پر اثر پڑے گا؟ کیا اس سے مودی جیسے موذی کا پائوں لڑکھڑائے گا؟ اطلاعات تو یہ ہیں کہ دہلی سے کمرشل پروازوں کے ذریعے آر ایس ایس کے 3ہزار تربیت یافتہ مسلح کارکن پلوامہ، سرینگر اور دوسرے شہروں میں پہنچائے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس تلواریں اور خنجر بھی ہیں۔ 12ہزار کشمیری آگرہ اور بھوپال کی جیلوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں۔ تقریباً ایک ماہ کی فون، انٹرنیٹ کی بندش، کرفیو کے باعث گھروں میں محصور رہنے کے باعث سینکڑوں کشمیری ذہنی مریض بن گئے ہیں۔ جو سرینگر کے مقامی ماہرین نفسیات کی رائے ہے۔ سرینگر کے کشمیری ملازم اپنے ایئرپورٹ کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے۔ایک طرف ہماری دُعائیں پلٹ کر آرہی ہیں۔ دوسری طرف مودی ٹولہ جو جی میں آرہا ہے جبر و استبداد کے اقدامات کر رہا ہے تو ہمیں اپنی زبانی جمع خرچ کی پالیسی بدلنا نہیں چاہئے؟ ہم اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ یقیناً جو چاہے کر سکتا ہے لیکن کیا ہمیں وہ نہیں کرنا چاہئے جس کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار آتا ہے؟ کیا ہمارے حکمراں کھلے عام حلف اٹھائیں گے کہ وہ اب کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ عوام سے کوئی چیز نہیں چھپائیں گے؟

کیا تاجر، دکاندار ریلی نکال کر یہ عزم ظاہر نہیں کر سکتے کہ اب ہم کسی صارف کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ گاہکوں کی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ نمبر 2مال نمبر 1کر کے نہیں بیچیں گے۔ کیا پاکستان کا سرکاری خزانہ لوٹنے والے سارا لوٹا ہوا مال واپس کرنے کا اعلان کریں گے؟ کیا وزرائے کرام، کشمیر پر بیانات جاری کرنے کے بجائے اپنے اپنے محکموں میں کرپشن روکنے اور عوام کو سہولتیں پہنچانے کا نظام قائم کریں گے؟ کیا وزیر ریلوے کو پاکستان میں ریلوے کا نظام درست کرکے کشمیر تک ریل لے جانے کا روڈ میپ نہیں بنانا چاہئے؟ کیا عمران خان کام کی تقسیم کریں گے کہ کشمیر کے مسئلے پر وہی بات کرے جس کی ذمہ داری ہے۔ وزیر خارجہ، ترجمانِ وزارت خارجہ، صوبائی وزرائے اعلیٰ اپنے صوبوں کے مسائل حل کریں۔ کشمیر ان کا دائرہ کار نہیں ہے۔ کیا علمائے کرام ایک دوسرے کے خلاف فتوے جاری کرنا بند کریں گے۔ کیا ہم مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کروا کے آپس میں لڑوانا بند کردیں گے؟

کیا اللہ تعالیٰ کے نائب انسان یعنی ملک کی اکثریت کے لئے ہم تمام وہ سہولتیں فراہم کریں گے جو ان کا حق ہے اور جو متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے۔ کیا عدالتیں سستا اور فوری انصاف دینا شروع کر دیں گی۔ کیا پولیس جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی بند کر دے گی۔ سچ اور انصاف کا بول بالا ہو۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ یہ طے کرلیں کہ ہماری زبان، ہاتھ سے کسی کو ایذا نہیں پہنچے گی تو دیکھیں کس طرح ہماری دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور دوسری طرف ملک میں ایک عادلانہ مضبوط نظام قائم ہوتا ہے۔ ہم صرف اپنی مصنوعات استعمال کریں۔ درآمدات کم کریں۔ اچھی معیاری مصنوعات بناکر برآمدات بڑھائیں۔ ملک کے لئے طے کریں کہ ہمارے طویل المیعاد اہداف کیا ہوں گے اور ضروری اہداف کیا۔ قرضے کتنی مدّت میں اتارنا ہیں۔ نئے قرضے نہیں لینے۔

حکمراں وہی کامیاب ہوتا ہے جو ذمہ داری اور پوری دیانت سے وقت کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ حالات کے مطابق ترجیحات کا تعین کرتا ہے، قوم کو اعتماد میں لیتا ہے، کسی کو پسند ہو یا ناپسند۔ اس معیار پر پاکستان کی تاریخ میں فیلڈ مارشل ایوب، شہید ذوالفقار علی بھٹو اور صدر جنرل مشرف پورے اترے۔ انہوں نے جو ضروری تھا وہ کر دیا۔ وہ سلسلے آج بھی چل رہے ہیں۔ دیگر حکمرانوں نے ترجیحات کا درست تعین نہیں کیا۔ اس لئے تاریخ ہمیں جھٹکے لگا رہی ہے۔ جغرافیہ ہم سے انتقام لے رہا ہے۔ قرضے لئے گئے منصوبے مکمل نہیں کئے گئے۔ پاکستان قرضوں سے آزاد ہوگا۔ فی کس آمدنی بڑھے گی۔ ملک سے معیاری مصنوعات برآمد ہوں گی تب پاکستان مستحکم ہوگا اور عالمی رائے عامہ ہماری بات سننے پر مجبور ہوگی۔ ہمیں مضبوط ہونا ہے۔ دفاعی طور پر ہم طاقتور ہیں الحمدللہ، لیکن اقتصادی طور پر بہت کمزور ہیں۔ ہماری کرنسی کی قدر بہت کم ہوگئی ہے۔ نعرے جتنے بھی بلند آواز سے لگالیں، ریلیاں نکال لیں، جب تک ہمارا معاشی اشاریہ اوپر نہیں جائے گا ہماری بات میں وزن نہیں ہوگا۔ وزیراعظم انقلابی اقدامات کریں۔ تب مودی خائف ہوگا۔بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …