جمعہ , 19 اپریل 2024

لو نیا کھیل شروع!

(نفیس صدیقی)

’’افغانستان میں کیا نیا کھیل ہونے والا ہے؟‘‘ کے عنوان سے گزشتہ ہفتے جب کالم شائع ہوا تو اسی روز کے اخبارات میں شہ سرخیاں تھیں کہ ’’امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان سے خفیہ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے‘‘۔ان خفیہ مذاکرات کا نہ تو امریکی وزیر خارجہ کو علم تھا اور نہ ہی پاکستان سمیت اس خطے کے دیگر ممالک کو پتا تھا۔ گزشتہ کالم میں صرف یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ افغانستان سمیت اس پورے خطے میں بہت کچھ ہونیوالا ہے اور پاکستان جس طرح پھنسا ہوا ہے، اسے نکالنے کیلئے قیادت نہیں ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کا جدلیاتی اصولوں پر تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ نہ تو افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور نہ ہی وہ افغانستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے۔وہ افغانستان میں نہ صرف اپنی فوجی موجودگی مزید بڑھانا چاہتا ہے بلکہ اس خطے کو نئی جنگ میں جھونکنا اور جنگ کا دائرہ ایک طرف مشرق وسطیٰ اور دوسری طرف جنوب مشرقی ایشیا تک بڑھانا چاہتا ہے۔ طالبان سے مذاکرات محض ڈرامہ ہیں۔

یہ سب کچھ کیوں ہونے جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ہمیں موجودہ حالات کو عالمی سامراجی اور سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی تسلسل کے تناظر میں سمجھنا ہوگا۔ یہ نظام نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔

میں نےاپنے کئی کالموں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ دنیا میں وہ توازن ختم ہوگیا ہے، جو سرد جنگ میں تھا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ سرمایہ دارانہ نظام کی قہر سامانیوں کو لگام ڈالنے کیلئے اشتراکی بلاک کی جو عارضی بندش تھی، وہ ختم ہوگئی۔ اشتراکی بلاک کے مفادات غیر سامراجی تھے۔ اب دنیا میں خانہ جنگی اور خونریزی ہوگی اور معاشی ترقی نہیں ہوگی۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا اور دنیا میں یونی پولر یعنی یک قطبی نظام رائج ہوگیا ہے۔

اب یک قطبی نظام والا عہد ختم ہورہا ہے۔ چین اور مشرق کے کئی ممالک اقتصادی طاقتیں بن کر ابھرے ہیں۔ اب دنیا میں نئی صف بندی ہورہی ہے۔ مشرق بعید اور لاطینی امریکہ کے بعض ممالک یک قطبی عہد کے عذابوں سے بچے رہے۔ وہ اقتصادی طاقت بن گئے ہیں۔

بھارت، ایران، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بعض دیگر جنوبی ایشیائی ممالک نے بھی اپنے ملکوں کو امریکہ اور اس کے حواریوں کی سیاست سے بچا کر رکھا۔ چین خود ایک عالمی معاشی طاقت کے طور پر اپنے سرمایہ دارانہ ایجنڈے پر چل پڑا ہے اور وہ تصادم کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے امریکی اور مغربی سامراجی طاقتوں کے سامنے ایک بلاک بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔

وہ ان سامراجی ملکوں کی منڈیوں میں گھس گیا ہے۔ روس، ایران اور معاشی طور پر ابھرتے ہوئے دیگر ممالک اس کی طرف داری پر مجبور ہیں۔ صرف بھارت اس خطے میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے حواریوں کا کھل کا ساتھ دے رہا ہے۔ بھارت نہ صرف ابھرتی ہوئی عالمی معاشی طاقت ہے بلکہ اسکے اپنے سامراجی عزائم ہیں۔

یہ بھارت ہی ہے، جو مشرق کی مغرب پر حالیہ تاریخ میں پہلی بالادستی قائم ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ بھارت کا امریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی سامراجی طاقتوں سے گٹھ جوڑ اسلئےہے کہ مشرق کی بالادستی کا سرخیل چین نہ بن جائے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں نئی صف بندی تو ہورہی ہے لیکن یہ سامراجی اور سامراج مخالف بلاکس کی نہیں ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ اور (کسی کو برا نہ لگے تو) سامراجی عزائم ہیں۔

جسے ہم سردجنگ کا عہد کہتے تھے، اس میں خونی طاقت کا ٹکرائو غالب تھا۔ پاکستان امریکی بلاک میں ایک فوجی طاقت کی حیثیت سے بہت اہم تھا۔ سرد جنگ کا عہد ختم ہونے کے بعد یہ اہمیت کم ہوئی۔ یک قطبی نظام کے خاتمے کے بعد یہ اہمیت مزید کم ہوگئی ہے۔

پاکستان جنگوں اور خانہ جنگی میں الجھا رہا اور معاشی ترقی کی صلاحیت کو بروئے کار نہ لاسکا۔ یہ آج کے حالات میں بہت تشویشناک بات ہے۔ پاکستان خطے کے جن اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کو اپنا دوست سمجھ کر ان پر انحصار کررہا تھا، وہ بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے معاشی یا یوں کہئے کہ سرمایہ دارانہ مفادات میں الجھ چکے ہیں۔ ان ممالک میں بعض تو ایسے ہیں جن کے حکمراں یا تو امریکہ کے حاشیہ بردار ہیں یا ان کے دست نگر ہیں۔ پاکستان بھی سیاسی اور معاشی طور پر عالمی سامراجی نظام کے خوفناک شکنجے میں آچکا ہے۔

اسے نہ صرف افغانستان میں ممکنہ نئی مہم سے مزید مشکلات درپیش آسکتی ہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی اس کے لئے چیلنج ہے۔ اس لیے گزشتہ کالم میں یہ مشورہ دیا تھا کہ چین اپنے طریقے سے افغانستان اور اس خطے میں امریکی اثر ورسوخ کم کرنا چاہتا ہے۔

لہٰذا چینی قیادت کے وژن سے سیکھا جائے۔ پاکستان کو عالمی سامراجی جکڑ بندی سے نکلنے اور نئے حالات میں اپنی مرضی کا ایجنڈا بنانے کے لئے اپنے ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کا آزادانہ ماحول فراہم کرنا ہوگا تاکہ کوئی بھٹو پیدا ہو تو اسے پھانسی پر نہ چڑھایا جاسکے اور اسی طرح کوئی کرپٹ یا اقربا پرور اور میرٹ کا خون کرنے والا اس ملک کے اعلی ترین عہدوں تک نہ پہنچ سکے۔ صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد افغانستان اور اس خطے میں نیا کھیل شروع ہوچکا ہے۔ افغانستان کا ڈسٹرب رہنا چین سمیت امریکہ کے نئے حریفوں کو پریشان کرنے کے لئے ضروری ہے۔بشکریہ جنگ نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …