ہفتہ , 20 اپریل 2024

خیبر پختونخوا حکومت نے عوامی تنقید کے بعد طالبات کیلئے عبایا لازمی پہننے کا فیصلہ واپس لے لیا

پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) خیبر پختونخوا حکومت نے عوامی تنقید کے بعد سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری سرکاری اسکولوں کی طالبات کے لیے عبایا پہننا لازمی قرار دینے کے فیصلے کو واپس لے لیا۔قبل ازیں پشاور میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی سی او) برائے خواتین ثمینہ غنی کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘پشاور میں خواتین کے تمام سرکاری مڈل ہائی و ہائیر سیکنڈری اسکولز کے سربراہان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اسکول کے اوقات کار پر سختی سے عمل کریں اور تمام طالبات خود کو عبایا، گاؤن یا چادر کے ذریعے مکمل ڈھانپے، جس کا مقصد طالبات کو کسی بھی غیر اخلاقی حرکت سے محفوظ رکھنا ہے’۔

واضح رہے کہ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا جب ہری پور کی ضلعی محکمہ تعلیم نے بھی اس ہی طرح کا سرکلر جاری کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے سیکریٹری ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ارشد خان کو متنازع احکامات واپس لینے کا کہتے ہوئے کہا کہ ‘یہ غیر ضروری ہیں’۔سیکریٹری ارشد خان نے ڈان کو بتایا کہ مخلتف اضلاع کی جانب سے جاری احکامات آج صبح واپس لے لیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے اور اس طرح کے احکامات کی کوئی ضرورت نہیں ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘ضلعی تعلیمی افسران نے معاملے پر وزیر اعلیٰ کو اعتماد میں نہیں لیا تھا’۔

خیال رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے اس اقدام پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر شدید تنقید کی جارہی تھی۔خیبرپختونخوا کی حکومت کی جانب سے طالبات کو جنسی ہراساں کیے جانے سے بچانے کے لیے محکمہ تعلیم کی جانب سے یہ نیا قدم اٹھایا گیا تھا۔قبل ازیں ثمینہ غنی نےنجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ زیادہ تر لڑکیاں اسکولوں میں پہلے ہی عبایا پہنتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ فیصلہ والدین کی حوصلہ افزائی کے لیے کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجیں’۔ادھر خیبرپختونخوا کے مشیر تعلیم ضیا اللہ بنگش نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ صوبے میں لڑکوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ضلع پشاور کے ساتھ قبائلی اضلاع موجود ہیں، کوہستان کا علاقہ ہے جبکہ صوبے کی بھی اپنی ایک روایات ہیں، اس کے علاوہ ہمارے مذہبی اقدار ہیں اور ان اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے فیصلے کرنے ہیں، ایسے فیصلے کرنے ہیں جن کے ذریعے سے والدین اس جانب مائل ہوں کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے ماحول کو محفوظ تصور کریں۔

مشیر تعلیم کا کہنا تھا کہ جس وقت ہم تعلیم کے حوالے سے صوبے میں مہم چلارہے تھے تو کچھ ایسی چیزیں ہمارے سامنے آئیں، جن کے سد باب کے لیے ہم نے مقامی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ لڑکیاں تعلیم کے حصول کے لیے عبایا، چادر یا گاؤن، جس کے ذریعے وہ خود کو مکمل طور پر ڈھانپ سکیں، پہن کر آئیں تاکہ ان کے والدین کے شکوک شبہات کو ختم کیا جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا آغاز ضلع ہری پور سے ہوگیا اور آج صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی اس پر عمل درآمد شروع کردیا جائے گا۔

صوبائی مشیر تعلیم نے کہا تھا کہ ‘یہاں وہ یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ان اقدامات کا مقصد تمام بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ان اقدامات کا مقصد موجودہ ماحول میں والدین کے شکوک شبہات کو دور کرنا ہے تاکہ وہ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے کے لیے ماحول کو محفوظ تصور کریں’۔ان کا کہنا تھا کہ اگر عبایا پہننے یا چادر پہننے کی وجہ سے بچیاں اسکول کی جانب آئیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں، کیونکہ ہمارا مقصد بچیوں کو تعلیم فراہم کرنا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

اسرائیل دنیا کی ہمدردیاں کھو چکا ہے: امریکی عہدیدار

واشنگٹن:امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مارک وارنر نے کہا کہ یہ …