ہفتہ , 20 اپریل 2024

پرائیوٹائزیشن کے منفی اثرات

(سید ذیشان علی کاظمی)

بقراط کہہ رہے ہیں کہ معیشت بحران سے نکل کر استحکام کی جانب گامزن ہے،خسارے میں جانے والے10اداروں کی نجکاری کی جائے گی جبکہ 20اداروں کی تشکیل نو ہو گی ۔حکومتی معاشی ٹیم کے اس فلسفے کو سمجھنے کیلئے تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا کہ ماضی میں نجکاری کے عمل سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا اور کیا نقصان ہوا؟حقیقت یہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں جب ساری دنیا میں معاشی حالات بہتر نتائج دے رہے تھے، اس وقت بھی پاکستان نہایت بدتر معاشی حالات کا سامنا کررہا تھا۔ آج بھی معاشی ماہرین 1990ء کے عشرے کو پاکستان کے لیے ’’ضائع شدہ دہائی‘‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔عالمی اداروں کی طرف سے اندھا دھند پرائیوٹائزیشن کرانے کے بارے میں دنیا کے سرمایہ دار کیمپ کے کئی معاشی ماہرین نے لکھا ہے کہ (ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا)کی سوچ ترقی پذیر ممالک میں تباہی کا باعث ثابت ہوگی، اس لیے ترقی پذیر ممالک کو اپنی پالیسیاں خود تشکیل دینے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔

1990ء میں جوزف اسٹگلٹز نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف and Its Discontents Globalizationمیں لکھا تھا کہ ورلڈ بینک کی پرائیوٹائزیشن کی پالیسی دنیا کے بیشتر ممالک کی ترقی پذیر صنعتوں پر منفی اثرات مرتب کررہی تھی۔ پاکستان نے بھی اسی نجکاری کے دبائو میں آکر وفاق اور صوبوں کے اداروں اور اثاثوں کو پرائیویٹائزکرنا شروع کردیا۔ پاکستان کے معاشی ماہرین نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسی نجکاری پاکستان کی ترقی کرتی ہوئی کئی صنعتوں اور سروسز انڈسٹری میں نہایت برے اثرات مرتب کرے گی، نہ صرف اس کی حمایت کی، بلکہ ایسی پالیسیوں کو انہوں نے مزید تقویت بھی بخشی۔ اس طرح سے ان ماہرین نے پاکستانی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو ڈبونے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔

پاکستان میں 1990ء کی دہائی میں چار مرتبہ سیاسی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے باعث معاملات مزید خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔پاکستان کی پرائیوٹائزیشن کا اگر جائزہ لیا جائے تو وفاقی حکومتیں مختلف اوقات میں سماجی ترقی کے ان شعبوں میں مداخلت کرتی رہی ہیں جن میں پہلے سے ہی پرائیویٹ سیکٹر بہترانداز سے کام کررہا ہے۔ اس کی ایک مثال ہائوسنگ سیکٹر ہے۔ شہروں میں ہائوسنگ سیکٹر کی ڈیمانڈ کی وجہ سے نجی شعبہ اسلام آباد راولپنڈی ،پشاور، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں گزشتہ کئی عشروں سے ہائوسنگ کے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے گھر تعمیر کرانے کے عمل کو کس طرح سے دیکھا جائے؟ پاکستان کو معاشی حوالے سے سخت تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس کا حل دو سمتوں میں صحیح قدم اٹھانے سے مشروط ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان اپنے اخراجات پر کنٹرول کرے۔دوسرا یہ کہ فوری طور پر معیشت کی مینوفیکچرنگ اور سروسز سیکٹر کو ترقی دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لیے ہیومن ریسورسز کے توسط سے لیبر مارکیٹ کے مختلف شعبوں کو اس کے لیے اپنا ہدف بنانا چاہیے، تاکہ گلوبل مارکیٹ میں اپنا حصہ شامل کیا جاسکے۔

1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد نوازشریف حکومت کی جانب سے اکائونٹ منجمد کرنا ایک سنگین غلطی تھی، لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین غلطی کرکے موجودہ حکومت پاکستان کے فنانشل سیکٹر کو غلط ٹیکسیشن اور کاروبار مخالف پالیسیوں کے ذریعے اس وقت تک سخت ضرب لگا چکی ہے۔ بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے، پہلی مرتبہ سرکاری ملازمین اور نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ حد تک ٹیکس کا اضافہ کردیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے پہلے ہی سے تمام عمر ٹیکس بھرنے والے ملازمین کو اور زیادہ پابند اور محصور کردیا گیا ہے۔ اکنامکس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کبھی بھی معاوضے میں کمی کی جائے اور اس نوع کی کمی یقینا Growth Negative جیسے نتائج ہی دے گی۔ اکنامکس میں کسی بھی معیشت میں دو کوارٹر یا چھ ماہ تک Growth Negative کا مطلب Recession ہوا کرتا ہے۔ اگر کوئی بھی معیشت مستقل قرض ہی پر اپنی بیلنس آف پیمنٹس کو چلاتی آئے اور اپنے بین الاقوامی کاروبار کا توازن بہتر نہ بنا سکے تو ایسی معیشت کو پھر دیوالیہ ہونے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ ہمیں اپنے معاشی معاملات کو بہتر کرنے کے لیے انہیں اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا۔بشکریہ مشرق نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …