ہفتہ , 20 اپریل 2024

جنرل اسمبلی میں عمران خان کا پہلا خطاب

(تنویر قیصر شاہد) 

زمین ہموار ہو چکی ہے۔ستمبر کے آخری ہفتے وزیر اعظم جناب عمران خان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے پہنچیں گے۔ یوں تو انھوں نے زندگی بھر دُنیا کے اہم فورموں میں خطاب کیا ہے لیکن اس خطاب پر پاکستانیوں، کشمیریوں اور بھارتیوں کی نظریں لگی ہُوئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ واقعی معنوں میں دُنیا کا امن خطرے میں پڑتا محسوس ہو رہا ہے۔

یوں لگتا ہے عنقریب کچھ نہ کچھ ہونے والاہے۔ عمران خان کشمیریوں کے ساتھ جس عزمِ کے ساتھ کھڑے ہیں، بھارت اور اُس کے ساتھی پریشان بھی ہیں اور پشیمان بھی۔ چند دن پہلے ایل او سی کی طرف آزاد کشمیریوں نے یلغار کی تو اس موقع پر خان صاحب نے معنی خیز اسلوب میں یہ کہا کہ’’جنرل اسمبلی میں میرے خطاب تک انتظار کر لیا جائے ‘‘۔ اس بیان سے کشمیریوں نے بلند توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ شائد اِسی وجہ سے آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت نے وزیر اعظم عمران خان کے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے تک ایل او سی کی طرف مارچ نہ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔

امریکا میں بسنے والے پاکستانیوں سے بھی عمران خان اپیل کر چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے نئے مظالم سے دُنیا بھر کو آگاہ کرنے کے لیے جب وہ ستمبر کے آخری ہفتے نیویارک آئیں تو کشمیریوں سے یکجہتی اور بھارتی وزیر اعظم کے اقدامات کی مذمت کرنے کے لیے جوق در جوق یو این او کی عمارت کے سامنے آئیں۔ امریکی پاکستانیوں کو ایک نقطے پر اکٹھا کرنے کے لیے وزیر اعظم کے ایک معتمد معاونِ خصوصی زلفی بخاری نیویارک پہنچ چکے ہیں۔

مجھے نیویارک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی ایک مشہور شخصیت جناب سردار نصر اللہ نے فون پر بتایا ہے کہ وہ اور اُن کے نیو یارکر پاکستانی دوست ہزاروں کی تعداد میں 27 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی عمارت کے سامنے اکٹھے ہوں گے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ صرف ’’لانگ آئی لینڈ‘‘( نیویارک کا ایک سمندری مضافاتی علاقہ)سے 400 بسوں میںکشمیر کے حق میں مظاہرہ کرنے اور خان صاحب سے یکجہتی کے لیے پاکستانی امریکن روانہ ہوں گے۔

اُنہوں نے بتایا کہ نیویارک میں کشمیری برادری کے متفقہ لیڈر سردار سوار خان بھی عمران خان کی کال پر لبیک کہتے ہُوئے پوری تیاریوں میں ہیں اور امریکا کے طول و عرض سے بھی پاکستانی بھی اپنے کشمیری بھائیوں کی محبت میں نیویارک پہنچنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ سردار صاحب، امریکا میں مقیم دولتمند بھارتی ہندو بھی نریندر مودی کے حق اور کشمیر بارے مودی کے اقدام کی تائید میں ہیوسٹن کے سب سے بڑے اسٹیڈیم میں اکٹھے ہو رہے ہیں جہاں مودی خطاب بھی کریں گے۔ جواباً سردار نصر اللہ صاحب نے مصمم لہجے میں کہا : آپ شائد نہیں جانتے کہ 27ستمبر کو خان صاحب کی حق میں یو این او کی بلڈنگ کے سامنے ہم پاکستانیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارے گا۔

جناب عمران خان خوش قسمت ہیں کہ امریکا میں اُن کی محبت اور احترام میں پاکستانیوں اور کشمیریوں کا سمندر جوش میں ہے۔ توقعات کا گراف بلند ترین سطح پر ہے۔ خان صاحب اس لحاظ سے بھی خوش بخت ہیں کہ جس مقصد کے حصول کے لیے وہ جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے پہنچ رہے ہیں، اُن سے قبل ہی اِسی مقصد کے پیشِ نظر زمین ہموار ہو چکی ہے۔

کئی امریکی سینیٹرز اور کانگریس مین مقبوضہ کشمیر کے حق میں وہی آواز بلند کر رہے ہیں جو خان صاحب کی ہے۔ مثال کے طور پر امریکی کانگریس کی ہاؤس کمیٹی برائے آرمڈ سروسز کے چیئرمین ایڈم اسمتھ نے امریکا میں بھارتی سفیر سے ملاقات کرنے کے بعد میڈیا کو بتایا ہے:’’کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد صورتحال کا ہم مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ ہمارے کچھ ساتھی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے 5 اگست کے بعد علاقے کا دورہ بھی کیا اور بتایا ہے کہ (مقبوضہ) کشمیر میں مواصلاتی روابط منقطع ہونے، فوجی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے اور کرفیو کے نفاذ پر ہمارے جائز تحفظات ہیں۔

میرے ساتھیوں نے دیکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے رہائشی دُنیا سے کٹے ہُوئے ہیں، پورا علاقہ فوجی حصار میں ہے۔ پانچ اگست کا بھارتی فیصلہ کشمیریوں کے لیے مہلک ثابت ہو رہا ہے۔‘‘ امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سربراہ ایلیٹ اینگل اور سینیٹر باب مینیڈیز نے بھی ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بھارت کے پاس موقع ہے کہ وہ کشمیریوں کے لیے تحفظ اور یکساں حقوق کا مظاہرہ کرے جس میں اسمبلی کی اجازت، معلومات تک رسائی اور قانون کے تحت یکساں حفاظت شامل ہے‘‘۔ امریکی کانگریس کے ایک اور رکن، ییٹی کلارک، کا بھی کہنا ہے :’’(مقبوضہ ) کشمیر کی صورتحال پر ہمیں سخت تشویش ہے۔وہاں جو کچھ ہورہا ہے، اس کے لیے آواز بلند نہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کو یہ سب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو وہ کشمیر ی عوام کے ساتھ کررہے ہیں۔ مودی کو معلوم ہونا چاہیے کہ مذہب کی بنیاد پر کشمیریوں سے جو امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، اس کے خلاف ہم لازمی طور پر اپنی آواز بلند کریں گے۔ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ کشمیریوں کو جیلوں میں ٹھونسنے اور اُن کی آوازیں دبانے کے لیے بھارتی علاقوں میں ’’حراستی مراکز‘‘(Concentration Camps) بھی بنائے جا رہے ہیں۔

اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ امریکی کانگریس کی واحد بھارتی نژاد امریکی قانون ساز پرامیلا جیاپال نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے: ’’ بھارتی حکومت کی جانب کشمیری مسلمانوں کے لیے بڑے پیمانے پر حراستی مراکز بنانے کے منصوبے پر مَیں سخت پریشان ہُوں۔ کشمیر میں صورتحال خاصی سنگین ہے جہاں ہزاروں شہری دنیا سے کٹ کر اور کسی الزام کے بغیر قید ہیں۔‘‘

امریکی ایوانِ نمائندگان میں اس وقت دو مسلمان خواتین بھی موجود ہیں : الحان عمر اور راشدہ طالب۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے ہمنوا سفید فام امریکی سیاستدان دونوں منتخب امریکی مسلمان خواتین کے خلاف اپنے تعصبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن یہ دونوں مسلم بہادر خواتین ڈٹ کر اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔ لاتعداد امریکی بھی اُن کے ساتھ ہیں۔ راشدہ طالب اور الحان عمر نے جس مستحکم لہجے میں مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی حمایت اور مودی کے تازہ و ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے،یہ بیانات عمران خان کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔اُنہیںجنرل اسمبلی کے اپنے خطاب میں ان کا حوالہ بھی دینا چاہیے۔یہ حوالہ کشمیر اور کشمیریوں بارے اُن کے موقف کی مضبوطی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کے جن انسانیت نواز ارکان نے کشمیر اور کشمیریوں کی حمایت میں آواز اُٹھائی ہے، اُن سب کے ہم شکر گزار ہیں۔ امریکی دارالحکومت میں پاکستان کی کوئی مضبوط اور تنخواہ یافتہ باقاعدہ لابی نہیں ہے۔ ایسے میں مذکورہ ممتاز اور مقتدر امریکی سیاستدانوں کا کشمیر کے حق میں آواز بلند کرنا دراصل مفت میں پاکستان کی اعانت ہے۔ ان کی قدر کرنی چاہیے کہ اِنہی بیانات نے نیویارک میں بھی عمران خان کے لیے زمین ہموار کی ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کو بھی مذکورہ افراد سے روابط بڑھانے چاہئیں۔ اگرچہ اس میں خاصی محنت اور کمٹمنٹ درکار ہے۔

کشمیر کاز کے مبلّغ اور کشمیریوںکے ’’سفیر‘‘ جناب عمران خان اگر جنرل اسمبلی میں خطاب سے پہلے ان امریکی سیاستدانوں سے ذاتی حیثیت میں ملاقات کریں تو یہ اقدام خاصا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ کشمیر کاز کے بارے میں خانصاحب نے جو غیر متزلزل لہجہ اختیار کررکھا ہے، اس اساس پر بھی امریکی میڈیا میںعمران خان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہُوا ہے۔ رُوسی ٹی وی (RT) کو دئیے گئے خان صاحب کے حالیہ انٹرویو کی بازگشت بھی واشنگٹن کے مقتدر حلقوں تک پہنچی ہے۔ معروف امریکی جریدے ’’وینیٹی فیئر‘‘ کے تازہ شمارے میں خان صاحب کے بارے میں شائع ہونے والے مفصل آرٹیکل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل اسمبلی میں ہر کوئی خا نصاحب کا منتظر ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …