جمعہ , 19 اپریل 2024

جمہوری اسلامی اور تھیوکریسی (حصہ اوّل)

سید امتیاز علی رضوی

تھیوکریسی کی اصطلاح اصل میں یونانی علمی اصطلاح ہے۔ یونانی زبان میں Theo کا مطلب خدا ہے، اور Logy علم کو کہا جاتا ہے، Cracy کے معنی ہیں حاکمیت۔لہذا Theology کا لغوی مطلب ہو گا علم الہیات جبکہ Theoracyکا لغوی معنی ہے “خدا کی حاکمیت”۔ تھوکریسی کے لغوی معنی سے جس سیاسی نظام کا خاکہ ابھرتا ہے وہ خالق کائنات کے احکام کا اجراء ہے جو مذہبی معاشروں کے لئے قابل قبول ہے بلکہ مطلوب بھی ہے کیونکہ مذاہب کی بنیادی تعلیمات میں اس فانی دنیا کے خالق و مالک کی حاکمیت کو قبول کیا گیا ہے اور اس اصل و اصول کو تسلیم کیا گیا ہے کہ جہاں بھی حکومت قائم ہو وہ خداکے احکام کی پابندی کرے۔ لیکن جب اس بنیادی تصور کو عملی جامہ پہنانے کی بات آتی ہے تو اس میں ایک مشکل پیدا ہو جاتی ہے کہ خدا کے ان احکام کا تعین کون کرے گا؟

یہودی دنیا میں ان کے مذہبی پیشواؤں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ مختلف معاملات میں خدا کی مرضی معلوم کر کے قانون سازی کریں ۔اگرچہ اہل یہود یہ سمجھتے تھے کہ خدا سپریم ہے اور اس کے جو احکامات حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے آئے ہیں وہیمملکت کا قانون ہوں گے لیکن وہ قوانین کیا ہیں یہ اختیار ایک مخصوص مذہبی طبقہ کو حاصل تھا جو احبار اور رھبان کے ٹائیٹل یا لقب سے پہچانے جاتے تھے اور ان کی بات ہی خدا کی بات سمجھی جاتی تھی گویا وہ خدا کا متبادل قرار دے دئے گئے تھے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں اس کی طرف اشارہ ہے: اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة/ 31] انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے احبار اور رھبانوں کو خدا بنا لیا ہے۔

اس اختیار کے ساتھ یہودی مذہبی پیشوا جو چاہتے "خدا کی مرضی "کے طور پر متعارف کروا دیتے اور ہر ایک کو اس کی اطاعت حکم خدا سمجھ کرکرنا ہوتی ۔ یوں یہودی دنیا میں ان کے مذہبی پیشوا خدائی قوت کا مرکز بن گئے۔ یہودی دنیا میں یہ بھی ہوا ہے کہ بعض مذہبی پیشواؤں کو حکمرانوں نے اپنی ساتھ ملایا اور ان کا یہ اختیار اپنی طرف منتقل کروا لیا ۔یعنی بادشاہ کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا کہ فلاں پیشوا کو یہ الہام ہو گیا ہے کہ خدا کی مرضی معلوم کرنے کا اختیار اب بادشاہ کے حوالے کر دیا جائے ۔جس کے نتیجے میں یہ بات طے ہو گئی کہ اب بادشاہ جو کہے گا وہ خدائی قانون ہے ۔اس کے علاوہ کچھ اور نظریات بھی بنائے گئے جیسے یہ کہ بادشاہ کی تخلیق جنت میں ہوتی ہے لہذا یہ جنتی مخلوق ہے، خدا جس کو بادشاہ بناتا ہے، وہ خدا سے اپنا یہ اختیار لے کر دنیا میں آتا ہے لہذا وہ سب کے لئے واجب الاطاعت ہے، بالفرض اگر وہ ظلم بھی کر رہا ہے تو بھی تمام رعایا کو چاہئے کہ وہ اس ظلم اور جبر کو برداشت کریں اور اس کے خلاف بغاوت نہ کریں کیونکہ وہ یہ سب خدا کی مرضی کے مطابق کر رہا ہے ۔ لہذا اہل یہود کے یہاں تھیوکریسی خدا کی حکمرانی سے بدل کر مذہبی پیشواوں کی مطلق العنانی یا ایسے بادشاہوں کی حکمرانی سے تعبیر کی جانے لگی جنہیں خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ ایسا ہی کچھ حال عیسائی دنیا کا بھی تھا۔

رومن کیتھولک عیسائی دنیا میں چرچ کا سربراہ جو پوپ کہلاتا ہے، اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ خدا کے احکام کا تعین کرے، چنانچہ اگر عیسائی دنیا میں تھیوکرسی کا نظام رائج ہو تو جس بات کو بھی پوپ خدا کا حکم قرار دیدے، حکومت کا سربراہ اسی پر حکم خدا سمجھ کرعمل کرنے پر مجبور ہے، اس طرح رومن کیتھولک عیسائیت میں تھیوکریسی کا عملی نتیجہ یہ ہوا کہ پوپ کی بات کو مانا جائے لہذا خدا کی حاکمیت کے لغوی معنی کو چھوڑ کر عیسائی دنیا میں بھی تھیوکریسی مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت کے معنی میں استعمال ہوتی ہے اور آج کل دنیا میں رہنے والے تھیوکریسی کو اسی نئے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ اب تھیوکریسی کا ترجمہ’’مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کی تعریف کے مطابق: ‏Theocracy is government by divine guidance or by officials who are regarded as divinely guided. “تھیوکریسی ایک ایسی حکومت ہے جس کو آسمانی راہنمائی حاصل ہو یا یہ ایسے کارپردازوں کی حکومت ہو جنہیں یہ سمجھا جاتا ہو کہ انہیں آسمانی راہنمائی حاصل ہے”

روم کی عیسائی تھیوکریٹک حکومتوں کا نظام کچھ ایسا رہا ہے کہ حکمران تو بادشاہ ہی ہوا کرتا تھا لیکن وہ پوپ کے مذہبی احکام کا پابند تھا۔ یوں اکثر بادشاہ اور پوپ کے درمیان بکثرت اختلافات رہتے تھے اور چونکہ پوپ کو بلاشرکت غیرے مذہب کے احکام متعین کرنے کا مکمل اختیار حاصل تھا اور اس پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں تھی اس لئے پوپ اپنے اختیارات کا غلط استعمال بھی کیا کرتا تھا۔ ایسے لوگوں نے بڑی بے رحمانہ پالیسیاں اپنائیں جن کی وجہ سے پوری انسانیت کو جبر و تشدد کی گھٹی ہوئی فضا میں صدیاں گزارنا پڑیں۔ جب کلیسا یا چرچ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کوئی گرجا گھر نہیں ہوتا بلکہ کلیسا ایک مکمل مذہبی ادارہ ہے جو پوپ اور اس کے زیر دست پادریوں پر مشتمل ایک مکمل نظام ہے ۔ جہاں ماضی میں یہودی تھیوکریٹک حکومتوں میں عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہ تھی وہاں کلیسا کے تحت تھیوکریسی چلانے والے مذہبیراہنماؤں نے بھی کبھی عوام کی رائے کو اہمیت نہیں دی کیونکہ وہ عوامی نمائندے نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ پوپ کے نامزد کردہ ہوتے تھے۔ یہ اہل یہود اور کلیسا کے مذہبی راہنما حکومتی اُمور میںبھی کسی الہامی شریعت کے وضع کردہ قوانین کے پابند نہیں تھے کیونکہ ان کے پاس پوری جامعیت کے ساتھ ایسے قوانین موجود ہی نہ تھے۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا اس تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …