ہفتہ , 20 اپریل 2024

اسرائیل اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں سیاسی بحران

تحریر: سید محسن طاہری

ایک معاشرے میں سماجی ٹوٹ پھوٹ اور سیاست پر اس کے اثرات سیاسی سماجیات کے اہم موضوعات میں شمار ہوتا ہے۔ ہر معاشرے کی سیاسی حیات ابتدا سے لے کر آج تک اس سماجی عمل سے متاثر رہی ہے اور سیاست اور حکومت کے میدان میں آج دکھائی دینے والے اختلافات اسی ٹوٹ پھوٹ کا شاخسانہ ہیں۔ دسمبر 2018ء میں بنجمن نیتن یاہو کی مخلوط حکومت سے لیبرمین کے انخلاء کے بعد حکومت ٹوٹ گئی اور یوں اپریل 2019ء میں مڈٹرم الیکشن کا انعقاد کیا گیا۔ اس الیکشن میں بنجمن نیتن یاہو کی جیت کے باوجود وہ نئی حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہے اور اس طرح صہیونی رژیم پانچ ماہ بعد دوبارہ الیکشن منعقد کروانے پر مجبور ہو گئی۔ ستمبر 2019ء میں منعقد ہونے والے انتخابات کا نتیجہ بھی امید بخش نظر نہیں آ رہا اور بالفرض تیسری بار دوبارہ الیکشن کی نوبت نہ بھی آئے تب بھی تشکیل پانے والی حکومت کی عمر لمبی نظر نہیں آتی۔ لہذا اس کے بعد بھی اسرائیل میں غیر متوقع انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔ ستمبر 2019ء کے الیکشن کے نتائج کے مطابق نیلا سفید اتحاد نے پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ تعداد میں سیٹیں حاصل کی ہیں جبکہ لیکوڈ پارٹی دوسرے نمبر پر ہے۔

دوسری طرف اسرائیل کی کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت تشکیل دینے کیلئے ضروری اکثریت یعنی نصف جمع ایک سیٹیں حاصل نہیں کر پائی۔ یہ امر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو درپیش سیاسی بند گلی کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن کیا یہ سیاسی بحران اور بند گلی محض سیاست کے میدان میں انجام پانے والی سیاست بازی کا نتیجہ ہے یا اس کے اسباب اسرائیلی معاشرے کی ثقافت اور سماجیات کے میدان میں بھی پائے جاتے ہیں؟ بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے کابینہ تشکیل دینے میں ناکامی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں ہم آہنگی کا انڈیکس (correlation index) بہت گر چکا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیلی معاشرہ دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی لیبر پارٹی اور لیکوڈ پارٹی میں تقسیم تھا۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں سیکولر ہیں۔ لیکن اب عوام کی بڑی تعداد ان دو جماعتوں کو چھوڑ کر مذہبی رجحانات کی حامل چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں جیسے شاس پارٹی، یہودیت توراتی وغیرہ کی سمت جھکاو پیدا کر چکی ہے۔ اسی وجہ سے ہم آہنگی کا انڈیکس نیچے آ گیا ہے اور نتیجتاً اسرائیلی معاشرے میں انتہائی گہری سماجی دراڑیں معرض وجود میں آ چکی ہیں۔ اس وقت اسرائیلی معاشرے کی تقسیم اشکنازی اور سفاردی یہودی ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئیڈیالوجی، قومیت، مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر استوار ہے۔

حالیہ انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دائیں بازو کی وہ چھوٹی چھوٹی شدت پسندانہ سوچ کی حامل سیاسی جماعتیں جو اس سے پہلے اسرائیلی معاشرے میں زیادہ مقبول نہیں تھیں اور سیاست کے میدان میں زیادہ تر بڑی جماعتیں حاوی تھیں، اب حکومت کی تشکیل میں زیادہ اہم کردار پا چکی ہیں۔ ستمبر 2019ء کے انتخابات میں سابق وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین کی سربراہی میں اسرائیل ہمارا گھر پارٹی نے 9 سیٹیں، مذہبی جماعت شاس پارٹی نے 9 سیٹیں، توراتی یہودی نے 8 سیٹیں، سچ کی جانب گامزن پارٹی نے 7 سیٹیں، اعتدال پسند تصور کئے جانے والے کار پل اتحاد نے 6 سیٹیں اور ڈیموکریٹک اتحاد نے 5 سیٹیں جبکہ عرب سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے 12 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنیٹ کینیسٹ کی اس مخصوص ترکیب کے پیش نظر درج ذیل نکات اہمیت کے حامل ہیں:

1)۔ جیسا کہ بیان کیا ہے اسرائیل ہمارا گھر، شاس پارٹی اور توراتی یہودی پارٹی جیسی شدت پسند جماعتیں فیصلہ کن کردار کی حامل ہیں اور دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی لیکوڈ اور نیلا اور سفید پارٹیاں ان کی شرائط قبول کئے بغیر حکومت تشکیل نہیں دے سکتیں۔
2)۔ اسرائیلی حکام چاروں جانب سے عرب ممالک میں گھرا ہوا ہونے کے باعث ہمیشہ مقبوضہ فلسطین میں عرب جماعتوں اور سیاست دانوں کو گوشہ گیر کرنے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں۔ لیکن اس بار عرب سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے 12 سیٹیں حاصل کی ہیں جس کے باعث انہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
3)۔ گذشتہ چند سالوں میں اسرائیلی معاشرے میں سیکولر رجحانات رکھنے والے افراد کی تعداد میں کمی آئی ہے جبکہ مذہبی رجحانات کے حامل افراد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ سیکولر گھرانوں میں بچوں کی کم تعداد جبکہ مذہبی گھرانوں میں بچوں کی زیادہ تعداد کا ہونا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی معاشرہ سیکولر معاشرے سے شدت پسندانہ مذہبی معاشرے کی جانب گامزن ہے۔ لہذا مستقبل میں مذہبی رجحانات کی حامل شدت پسندانہ حکومت دیکھنے کو ملے گی۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا اس تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …