جمعرات , 25 اپریل 2024

نوکریاں دینا حکومت کا کام ہی نہیں

تحریر: طاہر یاسین طاہر

حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
پی ٹی آئی کی قیادت کا کہنا ہے کہ انھوں نے اقتدار کے حصول کے لیے دو عشرے سیاسی محنت کی، تاکہ اقتدار کی مسند پر جلوہ نشیں ہو کر پاکستانی عوام کے ان مسائل کو حل کیا جا سکے، جن کے باعث پاکستان، مسائل کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ 31اکتوبر 2011ء والا مینارِ پاکستان کا جلسہ صحافیوں کو تو یاد ہی ہے، عام آدمی کو بھی بہت یاد ہے۔ پھر ایسا ہوا کہ سیاسی پرندوں کے غول اڑتے بنی گالہ کی طرف پرواز کرتے نظر آنے لگے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں گمان یہی تھا کہ پی ٹی آئی اقتدار کی مسند سنبھال لے گی، مگر ایسا نہ ہوا، نون لیگ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے "مذاکرات” اور توانائی بحران کے خاتمے کے دو نکاتی ایجنڈے کی بناء پر انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئی۔ 2013ء کے عام انتخابات پر غیر جانبدار حلقے سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ملک میں ایسا ماحول پیدا ہو چکا تھا، جس میں صرف نون لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان و مولانا سمیع الحق مرحوم کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہی انتخابی سرگرمیوں میں تیزی دکھائی۔ جبکہ بائیں بازوں کی جماعتیں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی کو بالکل کارنر کر دیا گیا تھا، حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء اور پاکستان کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا بیٹا ایک انتخابی کارنر میٹنگ کے بعد دہشت گردوں نے اغواء کر لیا تھا۔

اسی طرح ایم کیو ایم اور اے این پی کی انتخابی سرگرمیوں کو بھی دہشت گردوں نے اپنی وحشت کا نشانہ بنایا۔ بلور فیملی کے زیرک سیاستدان کو 2013ء کی انتخابی سرگرمیوں کے دوران ہی نشانہ بنایا گیا تھا، اور ان کے بیٹے کو 2018ء کے انتخابات میں شہید کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سماجی و سیاسی ہیجان اس قدر بڑھ چکا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جیت کے امکانات بالکل بھی نہ تھے، اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی کو کھلے عام جلسے نہ کرنے دیے گئے۔ نتیجہ نون لیگ کے حق میں نکلا، حالانکہ امیدیں پی ٹی آئی لگائے بیٹھی تھی۔ پی ٹی آئی کے ایجنڈے میں بھی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو مذاکرات کےذریعے”قومی دھارے” میں لانے کی بات کی جا رہی تھی۔ لیکن پی ٹی آئی کو اس کا موقع نہ مل سکا، حالانکہ اس جماعت نے کے پی کے، کے ایک ایسے مدرسے پر سرمایہ کاری کر رکھی تھی، جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی شکست کو 35 پنکچرز کا نام دیا۔ احتجاج کیے، 126 دن کا طویل دھرنا دیا گیا کہ اس دوران اے پی ایس پشاور کا المناک واقعہ پیش آیا۔ پی ٹی آئی نے اس واقعہ کے بعد دھرنا ختم کر دیا، جبکہ نون لیگ نے بھی دہشت گردوں کے خلاف عوامی دبائو کے تحت پالیسی تبدیل کی اور دہشت گردوں کے خلاف ایک انتہائی جارحانہ آپریشن شروع کیا گیا۔

موضوع سے منسلک ہونے کے لیے تاریخ کا حوالہ بڑا ضروری ہوتا ہے تاکہ قارئین کے ذہن میں جزئیات ایک ترتیب کے ساتھ کلیات کی طرف سفر کریں اور کسی نتیجہ تک پہنچ پائیں۔ اخبار نویس کا کام قارئین پر اپنی فکر مسلط کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنے فہم اور زمینی حقائق و سیاسی جماعتوں کے دعوئوں کی "روشنی” میں تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ پانامہ لیکس کے بعد پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی و دیگر ہنگامہ خیز جماعتوں کے ہاتھ نیا ایشو لگا۔ پانامہ کیس کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور سمجھا کہ روایتی خطاب اور بیانات کے ذریعے اس معاملے کو بھی عوام کے ذہنوں سے محو کر دیا جائے گا۔ لیکن برا ہو سوشل میڈیا اور حد سے زیادہ "بریکنگ نیوز "کے شیدائی میڈیا کا، کہ انھوں نے وہ گرد اڑائی کہ رہے نام اللہ کا۔ عمران خان اور اسد عمر بالخصوص روزانہ شام ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر مسائل کو ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہی حل کر دیا کرتے تھے۔ عوام کی ذہن سازی اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں اور یورپ کی سماجی حیات کی مثالوں سے کی جاتی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں پر بڑی نپی تلی گفت گو ہوتی اور عوام سمجھتے کہ واقعی پی ٹی آئی کے آنے سے پیٹرولیم مصنوعات 47 روپے فی لیٹر تک ملیں گی۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ملک سے بیروزگاری کے خاتمے کے لیے منصوبہ بندی کر چکی ہے اور ہم نوجوانوں کو "ایک کروڑ” نوکریاں دیں گے، جبکہ عمران خان کہا کرتے تھے کہ "نئے پاکستان میں لوگ باہر سے نوکریاں لینے پاکستان آیا کریں گے”۔ ویسے ابھی تک تو دو بندے ہی پاکستان "نوکری” لینے آئے ہیں جو عالمی مالیاتی اداروں کے عہدیدار ہیں۔ ایک بے قراری اور معاشی سست روی ہے، جسے حکومتی اقدامات مزیدتکلیف دہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین حکومتوں کے "ذاتی” ترجمان سابق وزیر اطلاعات اور موجودہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے بات "جامع” اور براہ راست کرتے ہوئے فرمایا کہ "حکومت 400 محکموں کو بند کرنے پر غور کر رہی ہے، یہ نہایت ضروری ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ حکومت روزگار فراہم نہیں کرسکتی، اگر ہم روزگار دلانے لگ جائیں تو معیشت تباہ ہوجائے گی”۔ حیرت ہے، یہ پہلی حکومت ہے جس کا کہنا ہے کہ نوکریاں دینے سے معیشت تباہ ہو جائے گی، عام آدمی کسی حد تک خوشحال ہو گا تو معیشت کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ لیکن کیا انھیں معلوم نہیں کہ کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے لیے روزگار، رہائش اور صحت و تعلیم کی ضروریات پوری کرنا ہی بنیادی کام ہے۔ سیاسی قاعدے کا پہلا سبق تو یہی ہے۔

اگر پرویز مشرف سے براستہ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی میں آنے والے فواد چوھدری اپنی کسی جدید "سائنسی” ایجاد کی بناء پر یہ سب کہہ رہے ہیں تو انھیں اس سائنسی ایجاد کے "کلیات” کو بھی بیان کرنا چاہیے تاکہ دنیا کے دیگر ممالک بھی استفادہ کر سکیں۔ اگر ہر کام پرائیویٹ سیکٹر نے کرنا ہے تو پھر وزیروں کی کیا ضرورت ہے؟۔ کیا حکومتوں کا کام صرف وزارتیں تقسیم کرنا اور ان وزارتوں کی آڑ میں وفاداریاں خریدنا ہی رہ گیا ہے؟۔ پرائیویٹ سیکٹر، میں نوکریوں سے مراد وہ "سرمایہ کار” ہیں، جنھوں نے انتخابات کے دوران میں پی ٹی آئی پر کھل کر سرمایہ کاری کی اور اب وہی لوگ اہم حکومتی اداروں کو خرید کر ریاست کے اندر ایک نئی ریاست کے وجود کا سوچ رہے ہیں، ورنہ ایسا کسی مہذب ملک میں ہو سکتا ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ سے نا اہل قرار دیا گیا بندہ حکومتی اجلاسوں میں نہ صرف باقاعدہ شرکت کرے، بلکہ کئی معاشی کمیٹیوں کی صدارت بھی کرے؟۔ کل کو کوئی اور وزیر یہ کہہ دے گا کہ سستے گھر دینا حکومت کا کام نہیں، اور اس سے اگلے دن کوئی وزیر یہ کہہ دے گا کہ ڈینگی سے لڑنا حکومتی کام نہیں، بلکہ مقامی سطح پر "خود کار” کمیٹیاں یہ کام "اپنے طریقے” سے انجام دیں۔ حکومت کا کام صرف گزشتگان پر تنقید، انھیں جیل میں ڈالنا اور جو بنی گالہ تشریف لے آئے اسے دیانتدار سمجھنا ہی رہ گیا ہے۔ نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ نوکریوں کی آس لگانے کے بجائے حکومتی لنگر خانوں سے تین تین وقت کھانا کھا کر "ظلَِ الٰہی” کی درازی عمر کے لیے دعا کر دیا کریں۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …