بدھ , 24 اپریل 2024

اے طیب ارگان، یزید سے بھی دوستی، حسینؑ کو بھی سلام!

تحریر: تصور حسین شہزاد

شام کے سرحدی علاقوں میں آباد کرد قبائل کیخلاف ترک حکومت کی جانب سے حملوں کے بعد دنیا میں کردوں کا معاملہ ایک بار پھر گرم ہو گیا ہے۔ مغربی میڈیا اس معاملے کو خوب مرچ مصالحہ لگا کر پیش کر رہا ہے۔ ترک حکومت کا موقف ہے کہ شام کے سرحدی علاقوں میں مقیم کرد ترک میں مقیم کردوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ترکی میں دہشتگردی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان حملوں کے بعد عالمی میڈیا نے کردوں کا معاملہ اٹھانا شروع کر دیا ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے ترکی کے ان حملوں کی نہ صرف ظاہری اور دکھاوے کی مذمت کی گئی بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کیخلاف اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے ترکی کی معیشت کمزور پڑ جائے گی۔ ان پابندیوں میں 100 بلین ڈالر کے تجارتی معاہدے کو معطل کرنے کیساتھ ساتھ ترکی سے فولاد کی امریکا درآمد پر بھی محصولات میں پچاس فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ترک فوجی کارروائی علاقائی امن و استحکام کیلئےخطرہ ہے۔ ترکی نے پیش قدمی نہ روکی امریکا ترک اقتصادیات کو کمزور سے کمزور کر دے گا۔

ٹرمپ کا ظاہری موقف ہے کہ انہوں نے اپنے کرد اتحادیوں کے ہمراہ داعش سے نجات حاصل کی لیکن اب ترکی ہماری کامیابی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ترکی پر مزید پابندیوں کی محض دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ شام میں عدم استحکام پیدا کرنے اور امن میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو بھگتنا ہوگا۔ اگر پیش قدمی نہ روکی تو کردوں پر حملے میں مدد کرنیوالے ترک شہریوں یا اداروں پر بھی پابندیاں لگیں گی۔ اُن پر امریکا میں داخلے پر پابندی ہوگی اور اُن کے امریکا میں اکاؤنٹس منجمد کر دیئے جائیں گے۔ دوسری جانب امریکی صدر کے حکم پر نائب صدر مائیک پینس اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن اہم پیغام لیکر جلد ترکی روانہ ہوں گے۔ امریکی نائب صدر نے میڈیا کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے تجارتی پابندیوں کیساتھ ترکی سے فوری طور پر شام میں جاری پیش قدمی کا سلسلہ روکنے، جنگ بندی اور کرد جنگجوؤں کیساتھ مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کے اس دوہرے معیار کہ ایک طرف ترکی کی پشت تھپتھپا رہا ہے تو دوسری جانب کردوں کو احساس دلا رہا ہے کہ وہ ان کیساتھ ہے۔ کرد کون ہیں اور ترکی کو پیش قدمی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت ہر باشعور انسان کے ذہن میں ہے۔

کرد ایران، عراق، شام، ترکی اور آرمینیا کے سرحدی علاقوں میں آباد ہیں۔ کرد ایران میں رہنے والے کرد ایرانی، عراق والے عراقی، شام والے شامی، ترک والے ترکی اور آرمینیا والے آرمینیائی کرد کہلاتے تھے مگر اس میں انہیں مسلم ممالک کیخلاف استعمال کرنے کیلئے ٹول کے طور پر تیار کیا گیا۔ کرد مذہباً مسلمان ہیں، بابل و نینوا کے میدانوں اور پہاڑوں میں رہنے والے لوگ ہیں اور معروف مسلمان سپہ سالار صلاح الدین ایوبی بھی اسی نسل سے تھے۔ اب موجودہ کردوں کے رابطے اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں کی بجائے امریکہ و اسرائیل کیساتھ زیادہ ہیں۔ اسرائیل میں اس وقت کردوں کے متعدد اہم رہنما قیام پذیر ہیں جو وہاں سے نام نہاد ’’تحریک آزادی‘‘ چلا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ کرد ترکی میں ہیں جہاں ان کے پاس اچھا خاصا علاقہ ہے، اس کے بعد ایران پھر عراق اور پھر شام میں ان کی آبادی ہے جبکہ آرمینیا میں ان کی آبادی مذکورہ بالا تمام ممالک سے کم ہے۔ ترکی میں چونکہ کردوں کے پاس علاقہ زیادہ ہے۔ اس لئے امریکہ اور اسرائیل کی خواہش ہے کہ ان مسلمان ملکوں کے درمیان میں ایک ایسی نئی ریاست بنا دی جائے جس میں بیٹھ کر امریکہ، ایران، عراق، ترکی اور شام پر نظریں گاڑ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کردوں کو امریکہ اور اسرائیل کی غیراعلانیہ حمایت حاصل ہے۔ 1978 میں کرد رہنما عبداللہ اوچلان نے ترکی میں ہی ایک آزاد کرد ریاست کے قیام کیلئے ’’پی کے کے‘‘ نامی سیاسی جماعت قائم کی تھی۔ اس کے قیام کے 6 برس بعد اس گروپ نے مسلح جدوجہد شروع کردی۔ اُس وقت سے اب تک 40 ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ 1990ء میں ’’پی کے کے‘‘ آزاد کردستان کے مطالبے سے دستربدار ہوگئی اور اس کی جگہ زیادہ سے زیادہ سماجی اور ثقافتی خود مختاری کے مطالبے کر دیئے، تاہم ان کی مسلح جدوجہد جاری رہی۔ 2013ء میں خفیہ مذاکرات کے بعد ایک جنگ بندی طے پائی۔ لیکن یہ جنگ بندی 2015ء میں شام کی سرحد کے قریب ایک ترک قصبے سورج میں ایک خودکش حملے کے بعد ختم ہوگئی۔ ’’پی کے کے‘‘ نے ترک پولیس اور فوج پر اس دھماکے کی سازش کا الزام عائد کیا۔ اس دھماکے کے بعد ترکی نے ’’پی کے کے‘‘ اور داعش کیخلاف دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ تب سے اب تک جنوب مشرقی ترکی میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ اب شامی کردوں کی جانب سے ترک کردوں کی مبینہ حمایت روکنے کیلئے ترکی کو حالیہ پیش قدمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔

ترکی کو اس حوالے سے آگاہ رہنا چاہیے کہ ترکی جس اسرائیل کو تسلیم کرکے انقرہ میں سفارتخانہ فراہم کئے ہوئے ہے، وہی اسرائیلی سفارتخانہ ترکی میں کردوں کو انقرہ حکومت کیخلاف استعمال کر رہا ہے اور امریکہ کی جانب سے فوری ایکشن بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ و اسرائیل کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ ادھر کشمیر میں اڑھائی ماہ ہونے کو ہیں، مکمل لاک ڈاون ہے۔ ہزاروں کشمیری شہید کئے جا چکے ہیں مگر امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوا، لیکن ترکی کی جانب سے فوجی کارروائی پر فوری طور پر ایکشن میں آتا ہے اور ترکی پر پابندیاں لگانے کا اعلان کر دیتا ہے۔ طیب اردگان کو اس حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ’’یزید سے بھی دوستی، حسینؑ کو بھی سلام‘‘ کی پالیسی چھوڑنا ہوگی۔ کیونکہ امریکہ یہاں دوہرے معیار کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایک طرف کردوں کا اتحادی ہے تو دوسری طرف ترکی کو بھی ہلاشیری دے رہا ہے۔ کہ وہ محض بیان بازی کی حد تک ترکی کے اقدام کی مخالفت کرے گا اور ترکی پر عائد کی جانیوالی پابندیاں محض دکھاوا ہی نظر آرہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کردوں کو حقیقت نظر آ گئی ہے اور شامی کردوں نے بشارالاسد حکومت سے مدد مانگ لی ہے۔ کردوں کو احساس ہونے جا رہا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ انہیں ’’آزاد کردستان‘‘ کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ مشرق وسطی میں امریکہ اور اسرائیل کا کردستان کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شامی کردوں نے بشارالاسد حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے شامی فورسز کو اپنے علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت دیدی ہے۔ ترکی کو کردوں سے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا، پھر بھی ان پر حملہ کیا گیا۔ باریک بینی سے حالات کا مشاہدہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے، جیسے امریکہ نے بڑے طریقے سے ترکی کو براہ راست جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ اب یہ جنگ ترکی کیلئے وہ نوالہ بننے والی ہے، جو نہ اگلا جائے گا نہ نگلا جائے گا۔ ترکی بری طرح ٹریپ ہو چکا ہے۔ترکی نے امریکی ایماء پر جنگ کو 5 روز کیلئے بند کر دیا ہے تاکہ وہاں سے کرد جنگجو نکل جائیں اور امن ہو جائیں لیکن 5 روز کے بعد کیا صورتحال ہوگی اس پر آنے والا وقت ہی صورتحال کو واضح کرے گا۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …