جمعرات , 25 اپریل 2024

جمہوری اسلامی اور تھیوکریسی (حصہ ششم)

تحریر: سید امتیاز علی رضوی

چونکہ ایران کے آئین کی رو سے رہبر کا منصب سب سے اعلیٰ اور برتر ہے اور اسے فقیہ ہونا چاہئیے لہذا دشمن نے اس نکتہ کو اس جمہوری اسلامی نظام پر تھیوکریسی کی تہمت لگانے کے لئے استعمال کیا جبکہ رہبر کا تعین بھی انتخاب سے ہوتا ہے اور اس منصب کے لئے انتخاب ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کرتی ہے جو خود عوامی رائے سے منتخب ہوتی ہے اور عوامی ووٹ سے معرض وجود میں آتی ہے۔ یہی منتخب اسمبلی رہبر کے واجد الشرائط نہ رہنے پر اسے عزل بھی کر سکتی ہے۔ امام خمینی کی رحلت کے بعد موجودہ رہبر کا انتخاب مجلس خبرگان نے آئین کے انہی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کیا تھا اور اس زمانے میں موجود مسلمہ فقہا جنہیں مذہبی حوالے سے مراجع تقلید کہا جاتا ہے کو نظر انداز کرکے ایران کے صدر آیت اللہ خامنہ ای کو جو انتظامی اور سیاسی بصیرت کے حوالے سے مراجع تقلید سے بہتر تھے ، کو منتخب کیا تھا جو اس کا ایک عملی ثبوت ہے کہ رہبر کے انتخاب کے لئے صرف فقیہ ہونا شرط نہیں ہے بلکہ فقاہت کے ساتھ سیاسی بصیرت اور اچھا منتظم ہونا بھی لازمی ہے ۔ یاد رہے کہ جب موجودہ رہبر کا انتخاب کیا گیا تھا اس وقت کوئی بھی انہیں مرجع تقلید کے عنوان سے نہیں پہچانتا تھا اور نہ ہی ان کے نام کے ساتھ آیت اللہ کا لقب تھا بلکہ انہیں حجةالاسلام کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ خلاصہ کلام یہ کہ رہبر کا انتخاب مذہبی ادارہ (حوزہ علمیہ قُم) نہیں بلکہ منتخب آئینی اور سیاسی ادارہ (مجلس خبرگان) کرتا ہے جو اپنے مقررہ وقت پررہبر کے اپنے عہدے پر باقی رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ بھی کرتی ہے۔ اگر جمہوری اسلامی ایران کوئی تھیوکریٹک حکومت ہوتی تو اس میں رہبر اور سب سے اعلیٰ منصب دار کا کیا انتخاب کیا اس طرح کیاجاتا؟

ایران میں صدر جمہوریہ کو بھی براہ راست عوامی ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ ایران کے موجودہ رہبرآیۃ اللہ خامنہ ای عوام کی منتخب مجلس خبرگان سے منصب رہبری کے لئے چنے جانے سے پہلے دومرتبہ ایران کے صدارتی منصب پر براہ راست انتخابات کے ذریعے بھاری اکثریت سے منتخب ہوچکے تھے۔

ایران میں مقننہ یعنی اسلامی مجلس شوریٰ کا انتخاب ہر چار سال بعد عوام بالغ رائے دہی کے اصول پر کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ہمیشہ مجلس/پارلیمنٹ کا انتخاب آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے، چاہے جنگ ہویا امن۔ یہ منتخب صدر اپنی کابینہ کے وزراء کو نامزد کرتا ہے اورعوام کی منتخب مجلس کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرتا ہے۔

ہر ترقی یافتہ جمہوری معاشرے اورملک کی طرح ایران میں بھی لوگوں کو آئینی آزادی اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ عدلیہ ،انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہے۔ قانونی مساوات بھی ہے اور قانون وآئین کی بالادستی بھی۔ نیچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئی دستور کا پابند ہے۔ ہرکسی حکومتی عہدہ دار کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ وزرا، صدر اور حکومتی عہدیدار سب پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔صدر جمہوریہ، پارلیمنٹ اور رہبر کے سامنے جوابدہ ہے ۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو نظام حکومت بنایا گیا اسے بعد میں نظام ولایت فقیہ کے نام سے شہرت ملی اگرچہ انقلابی تحریک اور آئین سازی کے مراحل میں نظام جمہوری اسلامی کی اصطلاح ہی استعمال کی جاتی تھی۔ یہ نظام ولایت فقیہ چونکہ نظام شہنشاہیت کو ہٹا کر آیا تھا لہذا کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ نظام تھیوکریسی کی شکل ہے اور آمریت ہی ہے جس میں شہنشاہ کی طرح ایک فقیہ کو مطلق العنان حاکم بنا دیا گیا ہے۔ مغرب نے بھی اس بات کو خوب اچھالا اور ایران میں رائج نظام کو غیر جمہوری اور تھیوکریٹک نظام کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئ۔جس سے ایران کے حامی انقلابی لوگ بھی دھوکے میں آگئے اور ولی فقیہ کو بادشاہ ہی کی طرح مطلق العنان سمجھنے لگے کہ جو اسلام اور خدا کا نمائندہ بن کر جو جی میں آئے کر گذرے۔ جبکہ فقیہ کی بنیادی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس پر کنٹرول رکھتا ہے اور وہ اپنے فیصلوں میں اپنی ہوگئے نفس کو داخل کر لے تو وہ خود بخود اس عہدے سے نا اہل ہو جاتا ہے۔

ذیل میں انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی کے دو اقوال نقل کرتے ہیں جس سے یہ غلط فہمی دور ہو جانا چاہئیے کہ ولی فقیہ کوئی مطلق العنان ڈکٹیٹر ہوتا ہے۔

امام خمینی نے فرمایا: ہم مطلق العنان (آمریت) کا خاتمہ چاہتے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ (ہمارے ملک میں) آمریت ہو،ہم چاہتے ہیں کہ ولی فقیہ آمریت (مطلق العنانی) کے خلاف ہو، ولایت فقیہ ، آمریت کی ضد ہے نہ کہ آمریت۔ ( صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۳۱۱)

ایک اور مقام پر آپ نے کہا: خدائی قانون کے علاوہ کسی کا قانون نہیں چلتا، اس کی حکومت سے ہٹ کر کسی کی حکومت نہیں ہے، نہ فقیہ اور نہ ہی غیر فقیہ کی۔ تمام قانون کے تحت عمل کرتے ہیں، ہم سب قانون کے اجراء کرنے والے ہیں۔ چاہے وہ فقیہ ہو یا غیر فقیہ سب کو قانون کے تحت ہونا چاہئے۔ (صحیفۂ امام، ج۱۰، ص۳۵۳)

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …