ہفتہ , 20 اپریل 2024

ایلس ویلز کی تقریر دھمکی ہے یا اطلاع

تحریر: سید اسد عباس

جمعے کے روز امریکہ کی جنوبی اور وسط ایشیائی امور کی نائب سیکرٹری ایلس ویلز نے واشنگٹن ڈی سی کے تھینک ٹینک ولسن سینٹر میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، تاہم یہ قرضے دینے کی شرائط کو شائع نہیں کرتا، جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے سے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہیئیں۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اس وقت نقصان پہنچے گا، جب چار سے چھ سال کے بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ ادائیگیاں موخر بھی کر دی گئیں، تب بھی یہ پاکستان کی معاشی ترقی پر منڈلاتی رہیں گی۔ اپنی تقریر میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، تاہم اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے سے پاکستان کو طویل المدتی معاشی نقصان ہوسکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایلس ویلز نے سی پیک کے حوالے سے متعدد مثالیں بھی دیں تھیں، جہاں ان کے خیال میں پاکستانی مفادات کو ترجیح نہیں دی گئی۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ سی پیک کے سب سے بڑے پراجیکٹ، کراچی سے پشاور تک ریل سروس کو بہتر بنانے کے ٹھیکے کی قیمت ابتدا میں 8.2 ارب ڈالر تھی، بعد میں پاکستانی وزیرِ ریلوے نے کہا کہ اسے 6.2 پر لایا گیا ہے، تاہم حالیہ میڈیا رپورٹس میں یہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کو یہ کیوں نہیں پتہ کہ اس کی قیمت کیوں بڑھائی گئی ہے۔ ایلس ویلز کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امریکہ کے پاس بہتر ماڈل موجود ہے، جس کے تحت نجی امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے وہاں مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچائیں اور حکومتی امداد سے پاکستانی معیشت کو مستحکم کیا جائے۔

پاکستان میں تعینات چینی سفیر یاؤ جنگ نے ایلس ویلز کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے مفاد میں ہے اور دونوں ممالک میں میڈیا کو سی پیک کے حوالے سے منفی پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔ چینی سفیر کا کہنا تھا کہ جب 2013ء میں پاکستان میں توانائی کا شدید بحران تھا اور چین ملک میں پاور پلانٹس لگا رہا تھا تو اس وقت امریکہ کہاں تھا۔ امریکی کمپنیوں نے اس وقت وہاں پر پاور پلانٹ کیوں نہیں لگائے؟ یاؤ جنگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو امداد اپنی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر معطل کیوں کی ہے۔ یاد رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان اور چین کے درمیان 60 ارب ڈالرز مالیت کا منصوبہ ہے، جو کئی پراجیکٹس پر مشتمل ہے۔

آج اتوار کے روز پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی موقف سے سی پیک منصوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہہ دینا کہ سی پیک کی وجہ سے ہمارے اوپر قرضوں میں اضافہ ہوگا، درست نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان پر مجموعی طور پر قرضوں کا بوجھ 74 ارب ڈالر ہے اور سی پیک کی مد میں لیے جانے والے قرضوں کی مالیت صرف چار ارب 90 کروڑ ڈالر ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سی پیک منصوبے جاری رہیں گے بلکہ توسیعی منصوبے کے تحت فیز ٹو کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سی پیک ہماری معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ یہ گیم چینجر ہے اور یہ ہماری ترقی کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ سپیشل اکنامکس زون میں امریکہ سمیت دیگر ممالک بھی سرمایہ کاری کریں۔

ایلس ویلز کی تقریر کے حوالے سے صحافتی حلقوں میں کافی بحث جاری ہے، بیجنگ میں مقیم ہندوستانی صحافی سیبل داس گپتا کہتے ہیں کہ ایلس ویلز ایک لحاظ سے پاکستان کو سی پیک کا منصوبہ ختم کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں، لیکن اگر ان کے بیان کو بغور دیکھا جائے تو وہ پاکستان سے یہ کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کو امریکی سرمایہ کاروں کے لیے بھی کھولو۔ داس گپتا کے مطابق ایلس ویلز کی تقریر کے وقت میں ایک مبہم سا اشارہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے امریکہ فروری 2020ء کو ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دے۔ داس گپتا کے مطابق اگرچہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ایک اچھا معاہدہ کرچکا ہے، لیکن اسے جو بیل آؤٹ پیکیج درکار ہے، اس کے لیے اسے امریکہ کی حمایت چاہیئے، لہذا یہاں بھی امکان ہے کہ اگر پاکستان چین پر اپنا انحصار برقرار رکھتا ہے تو شاید امریکہ آئی ایم ایف کے کیس میں بھی پاکستان کی حمایت نہ کرے۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور امریکہ، چین اور ہندوستان میں پاکستان کے سابق سفیر ریاض کھوکھر کہتے ہیں کہ امریکہ کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان دونوں ملکوں کی دوستی کتنی گہری ہے۔ ریاض کھوکھر نے کہا کہ چین نے یہ منصوبے پاکستان پر مسلط نہیں کیے تھے۔ پاکستان کی حکومتوں نے چین سے یہ پراجیکٹس خود مانگے تھے۔ اگر ان منصوبوں کے معاہدوں میں کسی قسم کی کوئی غلطی ہوئی ہے تو یہ ہماری جانب سے ہوئی ہے۔ چین نے ہماری کمزوری کا کہیں فائدہ نہیں اٹھایا۔ ریاض کھوکھر نے مزید کہا کہ چین کی سرمایہ کاری پر بہت زیادہ منفی تنقید ہو رہی ہے، لیکن چین نے کبھی بھی کسی ملک کا اس طرح استحصال نہیں کیا، جس طرح کا استحصال مغربی ممالک اپنی کالونیز میں کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کے ایک اور سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے چین سے اپنی دوستی میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے، تاہم امریکی نائب سیکرٹری ایلِس ویلز پاکستان کو یہ یاد دلانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ امریکہ بھی پاکستان کا دوست رہا ہے اور آئندہ بھی ہوسکتا ہے اور امریکہ نے جس طرح پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے، اس کا نہ صرف اقتصادی فائدہ ہوا ہے بلکہ (امریکی) اقدار بھی متعارف ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایلس ویلز نے چینی منصوبوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کرپشن کا اشارہ دیا، لیکن اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں دیا۔ سابق سفیر نجم الدین شیخ نے کہا کہ امریکہ اور چین دونوں ہی چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے، لیکن پاکستان کو اپنے مفاد میں دیکھنا ہوگا کہ وہ چین اور امریکہ کے درمیان توازن کیسے قائم کرے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ چین جیسی سرمایہ کاری نہیں کرتا ہے اور نہ کرنا چاہتا ہے، وہ تو نجی سرمایہ کاری کے لیے سہولتیں مانگتا ہے، جبکہ چین پاکستان میں سرکاری سطح پر یا سرکاری ضمانت کے ساتھ اپنی نجی کمپنیوں کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

اس تمام صورتحال میں کچھ دلچسپ حقائق بھی سامنے آرہے ہیں، جس میں امریکی محکمہ دفاع کے سابق مشیر اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر احسان احراری کا بیان ہے، جو کہتے ہیں کہ امریکہ نے گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کو نظر انداز کیا۔ ٹرمپ کے زمانے سے خاص کر، بلکہ اوبامہ کے زمانے ہی سے پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی دراصل ایک نان پالیسی ہے۔ امریکہ صرف افغانستان کی وجہ سے پاکستان سے بات کرتا ہے۔ ڈاکٹر احسان احراری نے امریکی نائب سیکرٹری ایلِس ویلز کی تقریر سے اس حد تک اتفاق کیا کہ چین کا ایک اپنے طرز کا امپیریلیزم ہے، وہ پاکستان کو اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے، جبکہ پاکستان کا آہستہ آہستہ چین کی جانب سرکنا اس کی پرانی پالیسی ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ڈاکٹر احراری کا کہنا ہے کہ جب سے پاکستان کو یہ نظر آیا کہ اسے امریکہ سے کچھ نہیں ملے گا تو وہ چین کی جانب سرکتا چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا اب پاکستان کے ساتھ کوئی باقاعدہ رابطہ نہیں ہے۔ اب سے کچھ دن پہلے زلمے خلیل زاد کے ذریعے رابطہ بنا تھا، لیکن اس ملاقات کے بعد اب کہیں کسی رابطے کی کوئی خبر ہی نہیں ہے۔

ڈاکٹر احسان احراری نے اس خیال کو بھی غلط قرار دیا کہ اب امریکہ اور انڈیا کے درمیان بہت مضبوط تعلقات بن گئے ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ میں انڈیا کی لابی بہت مضبوط ہے، لیکن انڈیا اب امریکہ پر اعتبار نہیں کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب الائنس والی بات نہیں ہے، پبلیسٹی بہت ہے۔ اب ان دونوں کے درمیان بائی دی وے والی بات رہ گئی ہے۔ سابق سفیر نجم الدین شیخ نے بھی اس جانب اشارہ کیا کہ ہندوستان میں اب یہ سوچ تقویت پکڑ رہی ہے کہ کیوں نہ ہندوستان بھی چین کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھائے، گذشتہ دنوں چینی سربراہ کے ہندوستان کے دورے کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں نجم الدین شیخ کے مطابق اب تو انڈیا امریکہ کو ناراض کرکے روس سے میزائل بھی خرید رہا ہے۔

یہ سوال واقعی اہم ہے کہ اچانک سے امریکہ کے پیٹ میں پاکستان اور پاکستانیوں کا درد کیوں اٹھنے لگا ہے، یہ بات تو واضح ہے کہ اسے ہمارا چین اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور معاہدے کرنا پسند نہیں ہے، اس نے ہندوستان کو چین اور پاکستان کے خلاف ایک محاذ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی، تاہم تازہ اطلاعات کے مطابق وہ اس محاذ سے بھی زیادہ امیدیں نہیں لگا سکتا، پس اب وہ براہ راست طور پر اس معاملے میں مداخلت کرنے کے منصوبے کے ساتھ سامنے آرہا ہے۔ ایک ہاتھ میں آئی ایم ایف کے بیل آوٹ پیکج پر حمایت اور ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ کی چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں اقتصادی معاہدوں کا لالی پاپ رکھ کر وہ ہمیں چین کے ساتھ چلنے والے معاہدوں سے دور کرنا چاہتا ہے، اسے ایسا کرنے میں ایران کی حد تک تو کامیابی ہوئی ہے، تاہم چین کا معاملہ بالکل جدا ہے۔ امریکہ کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ اب شاید بہت دیر ہوچکی ہے۔ اقتصادی راہداری کا معاہدہ فیز ٹو میں داخل ہوچکا ہے، جو امریکی عنایات اور دھمکیوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد اس مقام تک پہنچا ہے۔ بہرحال حالات یہی بتاتے ہیں کہ ہمیں پھر بھی جب تک ممکن ہو، ایک توازن کو قائم کرنا ہے اور بڑے فیصلوں کے لیے تیاری کرنی ہے۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …