ہفتہ , 20 اپریل 2024

بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ قابل نظرثانی

جے اے رضوی

علمی دنیا کی 103 بڑی شخصیتیں جن میں مصنف، فنکار بشمول آثار قدیمہ کے ماہرین نے جو بابری مسجد کی حمایت میں سنی وقف بورڈ کی طرف سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں گواہ کی حیثیث سے پیش ہوئے تھے، عوامی سطح سے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی نظرثانی کے لئے آواز بلند کی ہے، جس کے تحت بابری مسجد کی زمین پر بھارتی حکومت کو مندر بنانے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ یہ تحریری بیان سی پی ایم کے حمایتی صدر ہاشمی یادگار ٹرسٹ کے ذریعہ جاری کیا گیا ہے۔ بابری مسجد کی حمایت میں عرضی کے دستخط کنندگان میں ممتاز اور نمایاں نام سیاسی سائنسداں سی پی بھمبری، استا پٹنائک، ی پی چندر شیکھر اور جینی گھوش، تاریخ داں ڈی این جھا، عرفان حبیب، شرین موسوی، صحافی انترا دیوی سین، شیو کمار، مرلی دھرن، آنند سہائے اور نیمیلا فیلیپومس، شیٹرآرٹسٹ ایم کے رینا، این کے شرمان، کیول اودرا، سابق سرکاری آفسر وجاہب حبیب اللہ شامل ہیں۔

سپریہ ورما نے جو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں، استغاثہ گواہ کی حیثیت سے مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ بابری مسجد کی زمین کے نیچے کھدائی سے غیر اسلامی ڈھانچہ برآمد ہوا ہے۔ انہوں نے بھی مذکورہ ڈھانچہ کے بیان پر اپنے دستخط ثبت کئے ہیں۔ بیان پر اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا ہے، وہ محض اس وجہ سے ممکن ہوسکا کہ مجرمانہ طور پر مسجد کی عمارت 6 دسمبر 1992ء میں منہدم کر دی گئی تھی، جسے فیصلہ میں ججوں نے اعتراف کیا ہے کہ مسجد غیر قانونی طور پر منہدم کی گئی ہے۔ آگے کی سطروں میں جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فیصلے میں آثار قدیمہ کے محکمہ کی طرف سے بابری مسجد کی زمین کے نیچے کھدائی پر قیاس آرائی کی گئی ہے، وہ کبھی بھی ممکن نہیں ہوتا، اگر مجرموں کے ہاتھوں مسجد کا انہدام نہیں ہوا ہوتا اور نہ ہی زمین کو سرکاری توسط سے کٹر پسند ہندوؤں کے سپرد کرنا آسان ہوتا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آثار قدیمہ اور تاریخ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے اور اس کے حوالے دیئے گئے ہیں، وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے، کیونکہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے وکلاء یہ ثبوت یا دلیل نہیں پیش کرسکے کہ مغلوں اور نوابوں کے دور میں مسجد میں نماز ہوتی تھی۔ یعنی مسلمانوں کے دور حکومت میں مسجد میں نماز ہوتی تھی یا نہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کا بھی کسی قسم کا ثبوت نہیں ہے کہ رام بابری مسجد کی زمین پر پیدا ہوئے تھے اور نہ اس کی کوئی دلیل اور ثبوت ہے کہ ایودھیا میں ان کا جنم ہوا تھا۔ عدالت نے تلسی داس کی اس بات کو بھی چھپایا ہے کہ تلسی داس رام کی پیدائش پر خاموش ہیں۔ اپنے سیاحت نامہ میں خاص طور پر ٹیفین تھیلر اور مونٹیگو میری مارٹن نے جو 18 ویں اور 19 ویں صدی میں ہندوؤں کی سنی سنائی باتوں پر لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ رام کی پیدائش کی جگہ ایودھیا ہے اور ہندو ان کے جنم کی جگہ کی پوجا کرتے ہیں۔ صداقت اور سچائی سے کوئی مطابقت نہیں ہے۔

آخر میں دستخط کنندگان نے کہا کہ عدالت عظمٰی نے جو حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہندوؤں کا ایک ٹرسٹ بنا کر زمین کو ہندوؤں کے سپرد کردے، جو ہندوؤں کے مفاد کی حفاظت کرسکے، ایک سیکولر ریاست سے اس کی کوئی مطابقت نہیں ہے، لہذا ہم لوگ سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے غلط فیصلے پر نظرثانی کرے۔ 103 قابل قدر اور اہل علم و دانش افراد نے ایودھیا فیصلہ پر جو بیان دیا ہے، اس کی ہر طرف سے پذیرائی ہونی چاہیئے۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ ججوں کے بنچ کے فیصلے میں نہ صرف غلطیاں اور خامیاں ہیں بلکہ حق و انصاف کے بالکل خلاف ہے، جس سے فیصلہ ناقص ہو جاتا ہے اور اس کی قدر و منزلت بھی عوام و خواص کی نگاہ میں کم ہو جاتی ہے۔ دنیا میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کی اہمیت و قدر و قیمت ہے۔ فیصلہ یا صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے، جو حق و باطل کے فرق کو نظرانداز کرکے محض لڑائی جھگڑے کو روکنے کے لئے کیا جائے اور جس میں برسر حق گواہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بے جا جارحیت برتی جائے۔

فیصلہ وہی صحیح ہے، جو انصاف پر مبنی ہو۔ اسی سے فتنہ و فساد ٹلتا ہے، ورنہ حق والوں کے دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کے نتیجے میں لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اس سے بار بار فساد برپا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے۔ وقتی طور پر حق والوں کو جانبدارانہ اور حقیقت سے بعید فیصلوں سے دبایا تو جاسکتا ہے لیکن دیرپا امن قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دیرپا امن کے لئے حق و باطل کی تشخیص لازمی ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے بابری مسجد معاملے میں اپنے فیصلے میں ان تمام اصول و ضوابط کو نظرانداز کیا۔ تنازعہ تو اسی وقت ختم ہو جانا چاہیئے تھا، جب زبردستی رات کے اندھیرے میں ہندو شرپسندوں نے مسجد میں مورتی رکھ دی تھی، مگر متعلقہ مقامی مجسٹریٹ نے مسجد میں تالا لگانے کا حکم دیکر جھگڑے کو بڑھا دیا اور پھر 1992ء میں مسجد منہدم کر دی گئی، یہ دوسری بڑی زیادتی ہوئی۔

انصاف کچھ ایسا ہوا کہ زیادتی کرنے والوں کے حق میں فیصلہ سنایا دیا گیا۔ بھارتی عدالت عظمٰی سے درخواست کنندگان نے ایسے دلائل دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس اپنی خامیوں کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، بشرطیکہ صحیح طور پر عدالت عظمٰی غور و فکر سے کام لے اور جس طرح اس سے پہلے ایک مندر کے فیصلہ پر نظرثانی کے لئے بڑا بنچ تشکیل کرنے کی بات کی گئی ہے، اسی طرح بابری مسجد کے مقدمہ کے فیصلہ پر نظرثانی کے لئے ایک بڑے بنچ کے ذریعے نظرثانی ہونی چاہیئے اور فیصلے کی خامیوں کو درست کرنے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیئے۔ اںصاف ہی امن کا ضامن ہوتا ہے، ناانصافی اور حق تلفی بدامنی اور فتنہ و فساد کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ تمام خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کے ذی شعور و صاحب فہم افراد اب بھی سپریم کورٹ سے بابری مسجد معاملے پر اسکے دیئے گئے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہ طبقہ بھی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ناخوش و ناراض نظر آرہا ہے، کیونکہ مسلمانوں کی آخری امید سپریم کورٹ سے وابستہ تھی۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …