بدھ , 24 اپریل 2024

عراق کی تازہ ترین صورتحال پر ایک نظر

تحریر: محمد سلمان مہدی

عراق بحران پر ہم پچھلے ماہ بھی چند عرائض پیش کرچکے۔ البتہ زیر نظر تحریر تازہ ترین صورتحال سے متعلق ہے۔ جمعہ 29 نومبر 2019ء موجودہ عراقی جمہوری سیاسی نظام کی تاریخ کا اہم دن تھا۔ موجودہ احتجاجی لہر اور اس کی آڑ میں کی جانے والی دہشت گردی کے تناظر میں کئی اہم ڈیولپمنٹس ہوئیں ہیں۔۔ عراق کی مرکزی کابینہ کے سیکرٹری جنرل یعنی امین العام المجلس الوزراء حمید نعیم الغزی مستعفی ہوچکے ہیں۔ مرکزی کابینہ کو عراق میں مجلس الوزراء کہا جاتا ہے اور اس کے سربراہ یعنی وزیراعظم کو رئیس المجلس الوزراء کہا جاتا ہے۔

جمعہ 29 نومبر ہی کو وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے ایک رسمی بیان میں حکومت کے مستعفی ہونے سے متعلق اہم اعلان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ مرجعیت اعلیٰ کے تازہ ترین خطبے کو بہت غور سے سنا۔ عراقی المرجعیۃ الدینیہ العلیاء کی اصطلاح مرجع تقلید جناب آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور عادل عبدالمہدی نے آیت اللہ سیستانی صاحب کا موقف سننے کے بعد فیصلہ کر لیا کہ وہ مجلس النواب یعنی قومی اسمبلی کو ایک رسمی خط لکھ کر ان سے استعفیٰ قبول کرنے کی درخواست کریں گے۔ تاکہ نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے وہ اپنے آپشنز استعمال کرسکیں۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ یہ باتیں وہ پہلے بھی اعلانیہ کہہ چکے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کا بیان ان کے نمائندہ نے کربلا میں نماز جمعہ کے اجتماع میں پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ عراق کے دشمن ڈکٹیٹر شپ لانا چاہتے ہیں۔

گو کہ مرجعیت اور وزیراعظم دونوں عراق کو افراتفری اور خونریزی سے بچانا چاہتے ہیں، مگر عادل عبدالمہدی کے اس رسمی بیان کے بعد بھی ملا جلا ردعمل آیا ہے۔ اس کا ایک پہلو قانونی ہے کہ آیا وہ ایوان نمائندگان کے ووٹ کے بعد مستعفی قرار پائیں گے یا مستعفی ہوچکے۔ قانونی ماہر طارق حرب کا کہنا ہے کہ جیسے ہی وزیراعظم نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا، تب سے ان کا استعفیٰ نافذالعمل ہوچکا۔ انکا کہنا ہے کہ استعفیٰ پر اب مجلس النواب یا ایوان نمائندگان (یعنی قومی اسمبلی) میں رائے شماری کی ضرورت نہیں ہے۔

البتہ پارلیمانی گروپس نے اپنے اراکین کو مطلع کر دیا ہے کہ عراقی آئین کے مطابق عادل عبدالمہدی کا استعفیٰ نافذ العمل ہے۔ اب عراق کی حکومت نگران حکومت ہوچکی ہے۔ اب بال عراق کے صدر برہم صالح کی کورٹ میں ہے۔ آرٹیکل 76 کے تحت صدر مملکت نے وزیراعظم کے عہدے کے لئے اب متبادل امیدواروں کے نام تجویز کرنے ہیں اور یہ کام انہوں نے پندرہ دن کے اندر اندر ہی کرنا ہے۔ تو اب نئے وزیراعظم کے نام کے اعلان کے لئے اگلے دو ہفتوں تک عراقی انتظار کریں۔ جمہوری تقاضوں کے مطابق عراقی پارلیمنٹ کے سب سے بڑے پارلیمانی گروپ سے عادل عبدالمہدی کا متبادل تلاش کیا جائے گا، لیکن اس پر بھی پارلیمانی جماعتیں منقسم ہیں۔

ایسا بھی نہیں کہ نئے نام سامنے نہیں آئے۔ اس وقت تک النصر پارلیمانی بلاک کے سربراہ عدنان الزرفی، دولت القانون کے محمد شیاع السودانی، الفتح کے علی الشکری، سابق عزیر برائے جوانان و کھیل عبدالحسین عبطان، موجودہ وزیر تعلیم قصی السھیل اور سیاستدان عزۃ الشابندر کے نام متبادل وزیراعظم کے طور پر سامنے آچکے ہیں۔ یاد رہے کہ النصر اتحاد سابق وزیراعظم حیدر العبادی کا ہے۔ دولت القانون سابق وزیراعظم نوری المالکی کا انتخابی سیاسی پلیٹ فارم ہے اور الفتح کے سرکردہ رہنما ھادی العامری ہیں۔

ان کے علاوہ عراق کی موجودہ صورتحال میں ایک اہم نام مقتدیٰ الصدر کا ہے۔ انہوں نے استعفیٰ پر ردعمل ٹویٹ کی صورت میں نشر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ استعفیٰ انقلاب کا پہلا ثمر ہے۔ لیکن ساتھ ہی واضح کر دیا کہ استعفیٰ کا مطلب بدعنوانی کا خاتمہ نہیں۔ مقتدیٰ الصدر نے نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لئے انوکھا حل تجویز کیا ہے کہ نیا وزیراعظم ریفرنڈم کے ذریعے منتخب کیا جائے۔ پانچ امیدواروں کے نام رائے دہندگان کے سامنے پیش کئے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رائے لینے کے لئے احتجاج کے مقامات کے قلب میں پولنگ ڈبے رکھیں جائیں۔ ان کی تجویز ہے کہ ایک اینٹی کرپشن کاؤنسل بنائی جائے، جہاں اہل جج بدعنوان افراد کا احتساب کریں۔ انہوں نے تجویز دی کہ نیا وزیراعظم جماعتوں، گروہوں، مسلک و فرقے، قوم پرستی، مسلح جتھوں یا گروہی کوٹہ سے بالاتر ہو کر کابینہ کے اراکین کا انتخاب کرے۔ البتہ انہوں نے عدلیہ کی فعالیت پر تاکید ہے۔

مقتدیٰ الصدر کے ردعمل سے لگتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مقابلے میں جڈیشل ایکٹیوازم چاہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین بھی حکومت سے کم کرپٹ نہیں۔ انہوں نے دوست ممالک سے بھی کہا ہے کہ وہ عراق کو یہ موقع دیں کہ وہ اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کریں۔ البتہ انہوں نے اپنے حامیوں کو حکومت سازی کے عمل سے دور رہنے کی تاکید بھی کی ہے۔ یہاں اس صورتحال کا ایک دلچسپ پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ مقتدیٰ الصدر کے پارلیمانی اتحاد (بلاک) السائرون نے ایوان نمائندگان کا ہنگامی اجلاس ہفتہ 30 نومبر کو بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس مجوزہ ہنگامی اجلاس میں فوری طور پر وزیراعظم کا استعفیٰ قبول کرنے کے لئے ووٹنگ کرائی جائے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بیرونی دباؤ سے آزاد ٹیکنوکریٹس پر مشتمل قومی حکومت بنائی جائے۔ بیان میں جلدی انتخابات کا تذکرہ بھی ہے۔ یعنی السائرون کا اشارہ قبل از وقت انتخابات کی طرف ہے اور قومی حکومت سے مراد نگران یا قائم مقام حکومت ہے۔

عراق میں افواہ ساز بھی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ نئے وزیراعظم کے نام سے لے کر عراق کی مسلح افواج کے سربراہ کے استعفیٰ تک افواہیں گردش میں رہیں۔ میجر جنرل عبدالکریم خلف اور نجف کے گورنر لوئی الیاسری ان دونوں کی جانب سے استعفوں کی تردید کی جا چکی ہے۔ عراق کے ججوں نے بھی رئیس مجلس القضاء کو وزیراعظم کے عہدے پر نامزد کرنے کی مخالفت کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالتی کام بہت زیادہ ہے اور سبھی جج بشمول ان کے سربراہ کے بہت ہی مصروف ہیں۔ ججوں نے عدلیہ کے سربراہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی ایسی خبروں پر اعتراض کیا اور اس کی سختی سے تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی خبروں نے انہیں بہت پریشان کر دیا ہے۔ ججوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بننے کے خواہشمند ایک امیدوار اور ان کی تبلیغاتی فوج نے یہ افواہ پھیلائی تھی۔ کیونکہ یہ لوگ عراقیوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانا چاہتے ہیں۔

نجف کے گورنر لوئی الیاسری نے عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقاتی ٹیمیں نجف بھیجیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اداروں کے اہلکار ذمے داری سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے گولیاں نہیں چلائیں، کیونکہ انہیں پابند کر دیا گیا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، گولیاں نہیں چلانیں۔ انہوں نے نجف کے اصلی باشندوں سے اپیل کی کہ وہ پرامن مظاہرے کریں، لیکن ہر صورت میں تصادم سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ عراق میں امن و امان کی خراب صورتحال سے عراقی اور عراق کے باہر عراق کے خیر خواہ تو پریشان ہیں، مگر امریکی نائب صدر، امریکی مسلح افواج کے سربراہ دھڑلے سے عراق میں گھومتے پھر رہے تھے، جبکہ امریکی حکومت تو ایسے حالات میں الرٹ جاری کرتی ہے کہ کوئی امریکی ایسی حالت میں ایسے ملک نہ جائے۔

یقیناً عراق سے باہر بیٹھے لوگ عراق سے موصولہ خبروں پر بے چین ہوں گے، مگر عراق کے اندر اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ مرجعیت کا موقف عوام و خواص میں مقبول ہے۔ عراقی پارلیمنٹ کے سرکردہ پارلیمانی بلاک تحالف الفتح نے مرجعیت کے موقف کی روشنی میں عراق کو دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ بنانے اور عراق کے مفاد میں مطلوبہ تبدیلی کے لئے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا اعلان کر دیا ہے۔ تیار الحکمۃ الوطنی کے سربراہ عمار الحکیم نے مرجعیت کے ہدایات پر عمل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا اجلاس فوری منعقد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک منصفانہ انتخابی قانون و نظام اور الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ عمار الحکیم نے ذی قار اور نجف کے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

یہ محض چند خبریں ہیں، جن سے مجموعی صورتحال سمجھی جاسکتی ہے۔ عراق سے باہر بیٹھے افراد شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ بس سب کچھ ختم ہوکر رہ گیا۔ ایسا نہیں ہے۔ مرجعیت کے موقف کے بعد عراقی نمائندگان خود ہی مسئلے کے حل کی طرف عملی اقدامات کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ میں بھی مرجعیت کا احترام کرنے والے اور ان کی رائے کو اہمیت دینے والے نمائندگان کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ موجودہ عراقی صدر جو کہ کرد ہیں، وہ بھی دنیا بھر کو مرجعیت کی اہمیت و افادیت بتاتے رہے ہیں۔ نجف اور ذی قار جیسے واقعات پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے متشدد واقعات جیسے ہی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور بھی پاکستان میں ہوا تھا۔ پی ٹی وی ہیڈ آفس میں گھس کر جو حملہ کیا گیا، وہ بھی یاد کرلیں۔ فیض آباد کا دھرنا اور پھر اسکو ختم کرنے کے لئے ایکشن۔ میرا خیال ہے کہ مختلف ایشوز پر احتجاج میں تشدد کا عنصر اور اس سے نمٹنے کے لئے سکیورٹی اداروں کا ایکشن معمول کی بات ہے۔ آنسو گیس شیلنگ، واٹر کینن، لاٹھی چارج، یہ سب کچھ ہوتا ہے۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …