جمعہ , 19 اپریل 2024

امریکہ، طالبان اور افغانستان

تحریر: اسماعیل باقری

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28 نومبر کے دن کابل کے شمال میں 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بگرام امریکی فوجی اڈے کا دورہ کیا۔ اس موقع پر وہاں افغانستان کے صدر اشرف غنی اور وزارت دفاع کے مشیر اسداللہ خالد بھی موجود تھے۔ ان سے کچھ دن پہلے امریکہ کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مارک میلی بھی اچانک کابل پہنچ گئے تھے۔ اگرچہ افغان صدر اشرف غنی سے بگرام امریکی فوجی اڈے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات بین الاقوامی رویے کے خلاف اور افغانستان کی خودمختاری سے متضاد تھی اور افغانستان کی پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں کئی اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے تنقید کا بھی نشانہ بنی لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں طالبان سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ طالبان نے جنگ بندی قبول کر لی ہے۔ دوسری طرف قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس موقف پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ فائنل ہو چکا ہے اور حتمی منظوری کیلئے تیار ہے۔

سہیل شاہین نے کہا کہ امن مذاکرات کے تعطل میں امریکہ کا ہاتھ ہے اور ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت گیند امریکہ کے کوٹ میں ہے اور مذاکرات کی جانب واپس آ کر امن معاہدے کو حتمی شکل دینا یا جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کرنا ان کے اختیار میں ہے۔ بگرام امریکی فوجی اڈے میں امریکی فوجیوں اور افغان صدر اشرف غنی کی موجودگی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر جب چاہے افغانستان میں اپنے فوجی بھیج سکتا ہے اور اسی طاقت کے ذریعے اپنی پالیسیاں اور منصوبے آگے بڑھا سکتا ہے۔ لیکن پہلے سے اعلان نشدہ امریکی صدر کا دورہ اور ان کے افغانستان دورے کی خبر کئی گھنٹے تاخیر سے نشر ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان میں طویل ترین جنگ میں شکست کا شکار ہو چکا ہے اور حقیقت میں امریکہ طالبان سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا خواہاں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی جنگ بندی کی پیشکش ٹھکرا چکے ہیں۔

دوسری طرف افغانستان سے 2 ہزار امریکی فوجیوں کا انخلاء بھی اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن طالبان سے دوبارہ امن مذاکرات شروع ہونے کا محتاج ہے۔ اسی طرح افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بھی قطر کا چار روزہ دورہ کیا ہے اور طالبان کے رہنماوں سے ملاقات کی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب بھی طالبان سے مذاکرات میں ڈیڈ لاک سے روبرو ہوتے ہیں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دینے لگتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران ان کا بیان ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ملاقات میں کہا کہ ان کی حکومت میں بعض ایسے آپشن بھی زیر غور ہیں جن کے نتیجے میں لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کے بدلے ایک ہفتے کے اندر اندر افغانستان کی جنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔ ایسے بیانات مسئلہ افغانستان میں امریکہ کی لاچاری اور بے بسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ دوسری طرف طالبان بدستور افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ طالبان کا موقف ہے کہ گذشتہ 9 مذاکراتی نشستوں کے نتیجے میں امن معاہدہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے اور اب امریکہ اور اس معاہدے پر دستخط کر دینے چاہئیں۔

افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے بگرام امریکی فوجی اڈے میں جا کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا مقصد مستقبل میں اپنی حکومت کیلئے امریکی حمایت کا حصول تھا۔ اشرف غنی مستقبل میں بھی اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسی لئے امریکی اور آسٹریلوی شہریوں کی آزادی کے بدلے طالبان کے رہنما انس حقانی کو جیل سے آزاد کیا ہے۔ البتہ وہ طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر راضی کرنے کیلئے اس سے پہلے بھی طالبان کے کئی اعلی سطحی رہنما آزاد کر چکے ہیں۔ دوسری طرف ان کے ان اقدامات کے نتیجے میں نہ صرف طالبان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ طالبان نے کابل حکومت کے غیر قانونی ہونے پر بھی تاکید کرنا شروع کر دی ہے۔ اسی وجہ سے چین میں مختلف افغان گروہوں کے درمیان منعقد ہونے والے امن مذاکرات اب تک کئی بار ملتوی ہو چکے ہیں۔ طالبان اندرون افغان مذاکرات میں افغان حکومت کے مدمقابل بیٹھنے پر تیار نہیں۔ اشرف غنی بگرام امریکی فوجی اڈے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے ذریعے طالبان سے مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بگرام فوجی اڈے میں سابق امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات نہیں کی تھی لہذا اراکین پارلیمنٹ نے اشرف غنی کو اس ملاقات پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …