ہفتہ , 20 اپریل 2024

کیا مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر عرب سپرنگ کی دوسری قسط ہے؟

مظاہرہ

آپ کو سنہ 2011 میں مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی شورشیں تو یاد ہوں گی، جنھیں ’عرب سپرنگ‘ کا نام دیا گیا تھا۔لاکھوں مظاہرین نے سڑکوں پر آ کر ایک نئے آغاز اور تبدیلی کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں بہت سے آمر حکمرانوں کا تختہ الٹا۔ مظاہرین کی بہت سی امیدیں تھیں جو پوری نہ ہو پائیں اور یہ خطہ جنگ اور جبر کا ایک نیا محور بن کر سامنے آیا۔مظاہرین کی وہ شکایات جن کی بنیاد پر اس پورے معاملے کی ابتدا ہوئی تھی وہ کبھی دور نہ ہو پائیں۔سنہ 2019 وہ سال ہے جس میں یہ سب دوبارہ شروع ہوا اور مظاہروں کے نئے سلسلے کے نتیجے میں اب تک مشرق وسطی کے دو ممالک، عراق اور لبنان کے صدور مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں مظاہرین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔

بی بی سی کے مشرق وسطی کے ایڈیٹر جیریمی بووین لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اس پوری گتھی کو سلجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان ہی سے جانتے ہیں کہ مشرق وسطی میں کیا چل رہا ہے۔مشرق وسطی میں مظاہروں کا نیا سلسلہ شروع ہے جو حکومتوں کو جھنجھوڑ رہا ہے۔گذشتہ چند مہینوں کے دوران لبنان، عراق اور ایران میں بڑے بڑے مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔ مصر کی عوام متشدد ریاستی پولیس کے خلاف غصے سے بھری ہوئی نظر آتی ہے جبکہ گذشتہ موسمِ بہار میں الجیریا کے صدر کو صدارتی محل سے بیدخل کر دیا گیا۔

ان تمام ممالک کے عوام کے اپنے اپنے مسائل اور شکایات ہیں مگر ایک چیز جو مشترک ہے وہ ان میں موجود گہری مایوسی اور احساسِ محرومی ہے۔ زیادہ تر مظاہرین نوجوان ہیں۔ یاد رہے کہ مشرق وسطی کے ممالک کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد 30 برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔یہ نوجوان غصے سے بھرے ہیں، بیروزگاری اور بدعنوانی سے اکتائے ہوئے۔ انھیں اپنا مستقبل تابناک نظر نہیں آتا جبکہ دوسری جانب ان کے ممالک کی حکمران اشرافیہ طاقت اور دولت کے نشے سے سرشار ہے۔

لبنان کی صورتحال

میں لبنان میں ہوں، یہاں روزمرہ اشیائے ضروریہ عام عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔ لبنان کے صدر مقام بیروت میں سینٹرل بینک کی عمارت کے سامنے ایک مظاہرہ جاری ہے۔ مظاہرین اپنے پسندیدہ نعرے بلند کر رہے ہیں، یہ نعرے انقلاب سے متعلق ہیں۔ وہ مرکزی بینک کے گورنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہرا رہے ہیں کیونکہ ان کا دعویٰ ہےکہ گورنر چور ہیں۔چند نعرے وہ ہیں جو سنہ 2011 کی عرب سپرنگ میں بھی سننے کو ملے تھے، جن میں سب سے مشہور یہ ہے کہ عوام حکومت کا تختہ الٹا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔لبنان کو شدید معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔ مشرق وسطی کے وہ ممالک جہاں تیل کی دولت دستیاب نہیں ہے وہاں کے عوام کی زندگی بہت سی معاشی مشکلات کا شکار ہے اور لوگ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔لبنان میں ’ہارڈ کرنسی‘ یا نوٹوں کی شدید قلت ہے۔ لبنان کو ڈالرز کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں کے سٹورز میں دستیاب زیادہ تر اشیا امپورٹڈ (غیر ممالک سے درآمد شدہ) ہیں۔بات پیسوں سے بھی آگے کی ہے۔لبنانی مظاہرین اپنے ملک میں گہری ہوتی فرقہ واریت کے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں۔

علی امحاس ایک گریجوئیٹ سٹوڈنٹ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں پہلی مرتبہ ہم پرامید ہیں، بطور لبنانی عوام ہم متحد ہیں اور یہ روایتی مذہبی رواداری کی باتوں سے آگے کی بات ہے۔ خانہ جنگی کے بعد پہلی مرتبہ ہم نے ایک دوسرے کی اپنے قریب موجودگی کو نارمل سطح پر لائے ہیں۔‘جیونی فیحال بیروت میں 17 اکتوبر سے شروع ہونے والے مظاہروں کا انعقاد کرتی ہیں۔ یونیورسٹی میں کلاسسز ختم ہونے کے بعد وہ مظاہرین کی جانب سے لگائے گئے خیموں کا رخ کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم نعرے بلند کرتے ہیں تو بہت اچھا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ دیر کہ لیے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ بااختیار ہیں۔ خاص کر مظاہرین کی آوازیں سننا اور ان کی آنکھوں میں دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے، وہ جو مطالبے کر رہے ہوتے ہیں وہ اس میں سنجیدہ ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انھیں وہ ملے۔‘جیریمی بووین بیروت میں بنائی گئی دیوارِ انقلاب کے باہر موجود ہیں جہاں آرٹسٹک ذہن کے حامل مظاہرین اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔ لبنان میں ہونے والے بیشتر مظاہرے پرامن ہوتے ہیں، مگر ایران اور عراق میں گذشتہ چند ہفتوں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں جن میں درجنوں افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔چند لوگوں کا خیال ہے کہ مظاہروں کا نیا سلسلہ سنہ 2011 کی عرب سپرنگ کی دوسری قسط ہے۔

مشرقِ وسطی میں عوام کے مزاج برانگیختہ ہیں۔بیروت میں ایک پیٹرول پمپ کے باہر صورتحال اس وقت انتہائی کشیدہ ہو گئی جب پیٹرول خریدنے کے امیدوار لائن بنائے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے مگر اسی وقت انتظامیہ نے پمپ بند کرنے کا اعلان کر دیا۔’لوگ غصے سے بھرے ہیں کیونکہ وہ پیٹرول حاصل نہیں کر پا رہے۔ چند لوگوں نے اس معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے سٹرک بلاک کر دی ہے۔ یہ لبنان کا بحران ہے، کیونکہ لوگ اشیائے ضروریہ ہی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔‘رانیہ نصر الدین بھی پیٹرول خریدنا چاہتی تھیں۔ انھیں اپنے گاڑی سٹرک کنارے اس وقت چھوڑنی پڑی جب اس میں پیٹرول ختم ہو گیا۔انھوں نے بتایا کہ ’پیٹرول روزمرہ استعمال کی چیز ہے۔ ہم مصیبت میں ہیں۔ سرکاری نرخ کے برعکس روزمرہ استعمال کی اشیا خریدنے کے لیے ہمیں دگنے نرخ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ لبنان شاید سب سے مہنگا ملک بن چکا ہے۔ یہی ہماری زندگی ہے۔‘لبنان میں حالیہ مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب حکومتی نے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی کوشش کی۔ مگر وہ صرف ابتدا تھی لبنانی عوام کو اصل غصہ ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال پر ہے اور ایسی حکومت پر جو ان کے خیال میں سب سے زیادہ بدعنوان ہے۔

رانیہ کا خیال ہے کہ کچھ بہت بڑا ہونے والا ہے اور ایک بڑی تبدیلی آنے کو ہے۔ ’پہلے بہت سی پابندیاں ہوتی تھیں اور کوئی بھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ یہ جوا کھیلنے جیسا ہے، نتائج دیکھنے کے لیے آپ کو ایڈونچر کرنا پڑتا ہے۔ کچھ پانے کے لیے رسک لینا پڑتا ہے۔ آپ رسک نہیں لیں گے تو جیسے آپ ہیں ویسے ہی رہیں گے۔دوسری جانب بیروت میں واقع عراقی سفارت خانے کے سامنے بھی مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔وہاں موجود ایک خاتون نے بتایا کہ عراق سے سامنے آنے والی فوٹیج بہت افسردہ کر دینے والی ہے جہاں گلیوں میں لوگوں کی لاشیں ہیں۔ ’وہ نوجوان عراقی جو اپنے انتہائی بنیادی مطالبات کے حق میں گلیوں، سٹرکوں پر نکلے ہیں، ہم یہاں بیروت میں رہتے ہوئے ان کے جذبات کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے اپنے ممالک میں باعزت طریقے سے رہنا چاہتے ہیں کسی بھی بیرونی مداخلت کے بغیر۔‘

عراق میں ہوئے مظاہروں میں اب تک 400 کے لگ بھگ شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہوئی فائرنگ سے ہلاک ہو چکے ہیں، ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ جبکہ 15 ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے۔عراق کا شمار دنیا کے سب سے بدعنوان اور نااہل طرز حکومت کا شمار ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ مظاہرین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے اس لیے تیار ہیں کیونکہ وہ بدعنوانی اور بیروزگاری کے باعث مکمل طور پر ناامید ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں تیل کے بڑے ذخائر ہیں وہاں کی حکومت اپنے شہریوں کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھی ہے۔عراقی عوام نہ صرف اپنے نااہل حکمرانوں کو کوس رہے ہیں بلکہ وہ عراق کے ایران کے ساتھ اتحاد کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ حال ہی میں نجف اور کربلا میں ایران کے سفارت خانوں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے۔ یہ سب ہونے سے قبل ایران کے لیے عراق ایک دوستانہ ملک تھا۔

دوسری جانب ایران میں بھی شدید مسائل سے دوچار ہے۔ پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے بعد گذشتہ 15 روز سے ایران میں بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کردہ سخت معاشی پابندیوں نے وہاں کی صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ جبکہ بدانتظامی اور بدعنوانی ایران کا بھی مسئلہ ہے۔بی بی سی فارسی سروس کے مطابق حکومت کی جانب سے اب تک 200 سے زائد ایرانیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ایران پر الزام ہے کہ اس نے بیروت میں مظاہروں کو کچلنے کے لیے اپنی اتحادی حزب اللہ کی خدمات بھی لیں، مگر اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ مگر یہ اختتام نہیں کیونکہ حزب اللہ جو گذشہ 40 برسوں سے لبنان میں اپنا اثرورسوخ جمانے کی کوشش کر رہی ہے وہ نہ صرف طاقتور ہے بلکہ مسلح بھی۔

لبنان میں سٹیٹس کو ایران کے حق میں جاتا ہے اور وہ اسے کبھی تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔

ایسا سمجھیے کہ مشرق وسطی میں دو بڑے گروپ ہیں۔ پہلے گروپ کو ہم ’امریکہ کی ٹیم‘ کہہ سکتے ہیں اور اس گروپ میں سعودی عرب اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ جبکہ دوسرے گروپ کو ہم ’ایران کی ٹیم‘ کہہ سکتے ہیں جسے عراق، مصر اور مشرق وسطی سے سب سے طاقتور گروہ حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔ایران ٹیم کو اتحادیوں کی ضرورت ہے جنھیں وہ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مگر مشرق وسطی میں حالیہ مظاہروں نے فی الحال ٹیم ایران کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے، کیونکہ مظاہروں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لبنان اور عراق میں اب لوگوں میں ایران مخالف جذبات ہیں۔

پورے مشرق وسطی میں ہوئے مظاہروں میں لوگ اپنے مسائل اور مشکلات پر بات کر رہے ہیں اور سرحدوں سے بالا ہو کر نوجوان لوگ نااہل، بدعنوان اور غیر معتبر حکمرانوں سے نجات چاہتے ہیں۔مشرق وسطی میں ایک اور طوفان پنپ رہا ہے۔

بشکریہ بی بی سی نیوز

نوٹ: ابلاغ نیوز کی پالیسی کا تجزیہ نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …